سردار جعفری کی افسانہ نگاری کے تعلق سے تو لوگ جانتے ہیں، مجھے بھی علم تھا کہ انہوں نے کچھ کہانیاں لکھی ہیں۔ مگر جب میں نے نیا ادب کے شمارے میں ان کے ناول کا ایک باب دیکھا تو ذرا چونک گیا۔وجہ یہ ہے کہ ان کی ناول نگاری کے تعلق سے کبھی کہیں سنا، دیکھا نہیں ہے۔میں نے اس تعلق سے اپنے کچھ اہم احباب سے بھی پوچھا، ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ سردار جعفری کا ناول سے کیا تعلق۔اب چونکہ نیا ادب میں صرف یہ ایک ہی باب شامل تھا، اور دوسرے زیادہ شمارے میں دیکھ نہیں سکا، اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ سردار جعفری نے یہ پورا ناول لکھا تھا، یا اس کے کچھ مزید ابواب لکھے تھے یا صرف یہ ایک ہی باب لکھ کر انہوں نے ناول کے میدان میں قلم توڑدیا تھا۔مگر یہ مختصر سا باب دلچسپ ہے۔1943 یعنی کہ آج سے قریب تہتر سال پہلے لکھا ہوا یہ ناول اس وقت کے ممبئی کی ہلکی سی ایک تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے، جب وہ بمبئی ہوا کرتا تھا، اور شہر سے سٹے ہوئے سمندر کا تصور لوگوں کے لیے نہایت رومان پرور اور حیران کن سا تھا، بمبئی خوابوں کی آماجگاہ تھی، اس شہر سے اردو کے لکھنے والوں اور خاص طور پر ترقی پسندوں کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ ناول کا یہ باب اس وقت جاپان کی ان شورشوں کو بھی نمایاں کرتا ہے، جس نے ہندوستان میں اپنے دخل کو کامیاب بنانے کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں، یہ جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ہونے والی بمباری سے پہلے لکھی گئی تحریر ہے، اس حوالے سے بھی اس کی اہمیت مسلم ہے۔بہرحال اس پر بات کرنے کے کئی زاویے ہیں۔اگر یہ ایک دریافت ہے، تو مجھے خوشی ہے اور اگر لوگ اس کے بارے میں پہلے سے جانتے ہیں تو دوبارہ پڑھ کر اس کا لطف لے سکتے ہیں اور مجھےاور ادبی دنیا کے قارئین کو اس حوالے سے مزید جانکاری فراہم کرسکتے ہیں۔شکریہ(تصنیف حیدر)
***
ریاض کے سامنے سے یہ ہجوم سینما کی تصویروں کی طرح گزر رہا تھا۔ وہ کبھی اس ہجوم کی طرف دیکھنے لگتا اور کبھی سمندر کی طرف جو شام کی آہستہ آہستہ بدلتی ہوئی رنگت کے رنگ کے ساتھ بدل رہا تھا۔موجیں ایک دوسرے کا تعاقب کرتی ہوئی آتیں اور پھر لپٹ کر ایک ہوجاتیں۔ساحل کا ہجوم بھی کسی چیز کا تعاقب کرتا ہوا معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی رفتار بڑی سست تھی۔ان میں کا ہر شخص دن بھر کی محنت، دن بھر کے کام یا دن بھر کی بے دلی کے بعد یہاں تھوڑے سے سکون اور وقتی مسرت کی تلاش میں آیا تھا۔ جو چیز انہیں ان کا سماج اور نظام زندگی نہیں دے سکا تھا اسے وہ سمندر کی ٹھنڈی ہوا اور شام کے نظارے میں ڈھونڈ رہے تھے۔ان کے تھکے ہوئے اعضا اور مضمحل قویٰ میں ایک تازگی پیدا ہوگئی تھی۔
اس وقت ریاض کے دل و دماغ میں بھی تازگی تھی۔اس کے سینے میں خوشی کی ایک ہلکی سی لہر اٹھ رہی تھی جسے وہ سمندر کی طرح وسیع کردینا چاہتا تھا۔ اس کے برابر سے ایک نوجوان لڑکی ایک لڑکے سے باتیں کرتی ہوئی گزری۔اس کی آواز میں عائشہ کی آواز کا رس تھا۔ریاض کے ذہن پر کچھ بھولے ہوئے نقوش ابھر آئے اور وہ کچھ اداس سا ہوگیا۔لیکن فوراً ہی عائشہ کی جگہ ریتا نے لے لی جس سے ملنے کے لیے ریاض یہاں آیا تھا۔ وہ غیر ارادی طور پر اس اڈے کے پاس آکھڑا ہوا تھا جہاں ریتا کی بس آکر رکنے والی تھی۔اب تک سرخ اور بھورے رنگ کی کئی بسیں آکر جاچکی تھیں۔ابھی ایک سرخ رنگ کی بس گئی تھی اور اس میں سے صرف ایک بوڑھا پارسی اترا تھا۔سمندر پر دور کُلابہ کے سرے کے اس پار کسی ماہی گیر کی کشتی کا سفید بادبان نظر آرہا تھا۔پھر وہ شام کے دھندھلکے میں کھوگیا۔
اب سمندر کا پانی سیمنٹ کی دیوار سے آکر ٹکرانے لگا تھا اور آسمان سے ایک قسم کے سرمئی غبار کی بارش ہورہی تھی۔پانچ منزلوں کے اونچے اونچے مکانوں میں روشنیاں جل گئی تھیں لیکن کھڑکیوں سے باہر ان کا نور نہیں نکل سکتا تھا۔ایک سال پہلے تک جب یہاں کی روشنیاں جلتی تھیں تو سمندر میں آگ سی لگ جایا کرتی تھی لیکن اب لڑائی کی وجہ سے وہ روشنیاں نہٰں جل سکتی تھیں۔جاپانی بمباری کے خطرے نے ان چراغوں کو گل کردیا تھا جن سے کتنے ہی بجھے ہوئے دلوں میں بھی خوشی کی ہلکی سی روشنی پیدا ہوجایا کرتی تھی۔ریاض نے سوچا کہ لڑائی کے بعد یہ چراغ پھر جل اٹھیں گے۔چوپاٹی سے لے کر کُلابہ تک چراغاں ہوجائے گا یہیں کیا سارے بمبئی ، سارے ہندوستان، ساری دنیا میں چراغاں ہوگا۔اس کے ساتھ ساتھ انسانی آزادی، تہذیب اور تمدن کے چراغ بھی جلیں گے۔کتنے ہی مایوس چہروں پر امید کی چمک پیدا ہوگی۔کتنی ہی دھندلی پیشانیاں دمک اٹھیں گی۔
اس خیال کے ساتھ ہی ریاض کو ریتا کی پیشانی کی شکنیں یاد آگئیں اور سنگا پور میں جاپانی مظالم کے وہ تمام بھیانک مناظر اس کی نظروں میں پھر گئے جن کے نقوش ریتا کی پیشانی پر ابھی تک باقی تھے۔
ریاض نے آنکھیں اٹھائیں تو سامنے سے ریتا آتی ہوئی دکھائی دی۔وہ اس طرف مجمع کو چیرتی ہوئی آرہی تھی جیسے کوئی کشتی موجوں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔اس کے قدم زمین پر نہیں پڑرہے تھےبلکہ وہ فضائوں کی بلندی سے نیچے اترتی ہوئی معلوم ہورہی تھی۔ریاض کے دل میں احترام اور عقیدت کا جذبہ ابھر آیا۔
ریتا نے اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر مسکراتے ہوئے کہا۔’کیا مجھے دیر ہوگئی؟‘او ر اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح دمک اٹھا۔’تم یہاں کیسے کھڑے ہوئے ہو؟‘
’ریستوراں میں بڑی گھٹن تھی۔اس لیے باہر نکل آیا، یہ کہتے ہوئے ریاض نے بھی اپنا ہاتھ مصاحفے کے لیے بڑھادیا لیکن ریتا کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر وہ ایک دم سے ٹھٹھک گیا۔ان میں مسکراہٹ تھی یا آنسو؟ لیکن اس کے ہونٹوں اور رخساروں پر یقیناً مسکراہٹ تھی۔ریاض ان سیاہ آنکھوں کی بے اندازہ گہرائیوں میں ڈوب گیا جن کی سطح پر مسرت کی چمک اور سطح کے نیچے غم کے آنسوئوں کی جھلک تھی۔اس غم نے اس کی نظروں میں بے انتہا التفات پیدا کردیا تھا جو اکثر بیماروں کی آنکھوں میں ملتا ہے۔
ریاض رتنا کے متعلق اتنی باتیں سن چکا تھا کہ وہ رسمی اخلاق اور تہذیب کو بھول کر اسے گھورنے لگا جیسے کوئی سائنسداں کسی چیز کی ماہیت دریافت کرنا چاہتا ہو۔ریتا اس وقت اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی اس وقت وہ اس کے پاس افواہوں اور خبروں کی شک میں نہیں آئی تھی بلکہ گوشت اور پوست کا ایک حقیقی مجسمہ تھی۔اس کا ہاتھ ریاض کے ہاتھ میں تھااور ریاض کی آنکھیں اس کی آنکھوں میں۔
ریتا نے پوچھا۔’کیا دیکھ رہے ہو ریاض؟‘
ریاض نے کہا’کچھ نہیں۔تمہاری آنکھیں بڑٰ خوبصورت ہیں۔‘
ریتا نے جیسے یہ بات سُنی ہی نہیں اور کہنے لگی کہ ’مجھے بس بڑی دیر میں ملی۔یہاں پہونچ کر میں ریستوراں بھول گئی اور آگے نکل گئی۔تمہیں آئے ہوئے کتنی دیر ہوئی؟‘
’ایک آدھا گھنٹہ۔میں سمجھا تھا کہ تم اب نہیں آئو گی۔‘
دونوں دیوار پر سمندر کی طرف پیر لٹکا کر بیٹھ گئے۔موجیں دور سے دوڑ کر آتیں، دیوار سے ٹکراکر اوپر اٹھتیں اور ان کے قدموں کو چوم کر چلی جاتیں۔
دونوں اپنے گرد و پیش سے بے خبر ہوگئے۔انہیں یہ بھی احساس نہیں رہ گیا کہ ان کے برابر کچھ لوگ بیٹھے ہیں۔دور بہت دور جہاں سمندر افق کے پاس ایک ہلکی سی لرزش بنا ہوا تھا ان کی آنکھیں معلوم نہیں کیا دیکھ رہی تھیں۔
ریاض نے اپنے دل سے سوال کیا ۔’کیا میں ریتا سے محبت کرتا ہوں؟‘
ریتا نے اپنے دل سے سوال کیا۔’کیا میں ریاض سے محبت کرتی ہوں؟‘
پھر دونوں کی نگاہیں خودبخود اٹھ کر مل گئیں اور دونوں مسکرادیے۔ریاض نے اپنا ہاتھ بڑھا کرریتا کے ہاتھ پر رکھ دیا۔سمندر کی ہوا کے نرم اور ٹھنڈے جھونکوں میں شراب کی سی کیفیت تھی اور بڑھتا ہوا اندھیرا ان کے گرد محبت کے جادو کا جال سا بُن رہا تھا۔
ریاض ایک ذہنی اور جذباتی کشمکش میں مبتلا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ کیا یہ لڑکی جاپانی ایجنٹ ہوسکتی ہے۔خوبصورتی اور فاشزم دو متضاد چیزیں ہیں۔اس سے بڑھ کر المناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ ریتا جاپانی سفاکی کی مشین کا ایک پرزہ بن جائے۔کیا اس کے پاس ضمیر نہیں ہے؟کیا وہ ہندستان کی غلامی کی زنجیریں توڑنے کے بجائے اپنے وطن کو نئی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کرے گی؟
پھر اسے خود اپنا ضمیر ملامت کرنے لگا۔ایک کمیونسٹ کو ایک عورت کے پیچھے اس طرح نہیں دوڑنا چاہیے اور عورت بھی ایسی جس کے متعلق کسی کو کچھ نہ معلوم ہو۔ممکن ہے وہ بمبئی اس لیے آئی ہو کہ کمیونسٹ پارٹٰ کے خلاف سازش میں مدد دے۔لیکن اس نے ابھی تک تو کوئی ایسی بات نہیں کی جس پر شبہ کیا جاسکے۔وہ ریاض کے علاوہ کسی اور کمیونسٹ کو جانتی ہی نہیں تھی اور ریاض بھی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر نہیں تھا حالانکہ وہ اپنے آپ کو اسی انقلابی گروہ کا ایک فرد سمجھتا تھا۔
ریتا نے کہا۔’ریاض میں بہت بدنام ہوں۔تم یہاں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ہو۔تمہیں بھی لوگ جاپانی ایجنٹ کہنے لگیں گے۔‘
ریض کی خودداری کو ٹھیس سی لگی۔’مگر میں تو تم پر شبہ نہیں کرتا، مجھے ذرا بھی فکر نہیں۔‘
’اس ملک میں کسی عورت کا اکیلا رہنا قیامت ہے۔مگر بتائو اس میں میرا کیا قصور ہے؟‘
’تمہارے گھر والے کہاں ہیں۔‘ریاض نے پوچھا۔
’سب سنگاپور میں رہ گئے۔مجھے ان کا خیال کرکے بڑی تکلیف ہوتی ہے۔نہ معلوم کس مصیبت میں ہوں۔‘
’تم وہاں سے کیوں بھاگ آٗئیں؟‘
ریتا نے آنکھیں اٹھا کر ریاض کی طرف دیکھا ان کی چمک غائب ہوگئی تھی اور ان میں بلا کی اداسی تھی۔ریتا نے رک رک کر کہا۔’میں نے ایک چینی سے شادی کرلی تھی۔‘پھر اس نے ایک ٹھندی سانس کھینچ کر کہا۔’کبھی اطمینان سے تمہیں اپنی زندگی کی کہانی سنائوں گی۔‘
اس کی آنکھوں کے سامنے سے بہت سے پردے اٹھ گئے۔اس نے ہمیشہ ریتا کو مسرت میں سرشار دیکھا تھا لیکن اب اس کے خوبصورت چہرے پر اندھیرے میں بھی غم کی بہت سی لکیریں نظر آرہی تھیں۔وہ یہ بھول گیا تھا کہ ریتا کے متعلق لوگ طرح طرح کے شبہات کا اظہار کرتے ہیں اور اس نے زیر لب کہا۔’تمہارا دل دکھا ہوا ہے۔‘
ریتا خاموش ہوکر کسی بڑے گہرے سوچ میں ڈوب گئی تھی۔ریاض نے پوچھا۔’تم چپ کیوں ہوگئیں۔‘
’بڑی خوبصورت شام ہے۔‘اس نے جواب دیا۔’میری غمگین کہانی سن کر شام کا لطف کیوں خراب کرتے ہو۔آئو اب یہاں سے چلو۔مجھے گھر تک پہنچادو۔‘
دونوں سبز جھاڑیوں کی باڑ عبور کرکے سڑک کے دوسرے کنارے چلے گئے۔
’تمہیں بمبئی پسند ہے؟‘ریتا نے شوق سے پوچھا۔
’بہت زیادہ۔شاید ہی ہندستان میں کوئی شہر اتنا خوبصورت ہو۔‘
چوپاٹی اور میرین ڈرائیو دنیا کے خوبصورت ترین حصوں میں سے ہے۔آبادی سے اتنا قریب سمندر کہیں نہیں ہے۔‘
’تمہیں کیسے معلوم؟‘
’میں نے بہت سے ساحل دیکھے ہیں۔‘یہ کہہ کر ریتا خاموش ہوگئی اور دونوں رات کے اندھیرے میں ساتھ ساتھ چلتے رہے۔
ریتا اپنی پچھلی زندگی پر غور کررہی تھی۔اس کی ساری زندگی ایک موج کی طرح تھی جو معلوم نہیں کتنے جانے اور کتنے ان جانے ساحلوں سے ٹکراچکی تھی۔جب وہ ایک ساحل سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتی تو دوسری نئی موج کی شکل اختیار کرلیتی۔اس مٰں زندگی اور نمو کی بے انتہا طاقت تھی۔اس وقت یہ موج ایک نئے ساحل کے قریب تھی اور ریتا کو نہیں معلوم تھا کہ اس کا حشر کیا ہوگا۔
دونوں نے راستہ میں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا ۔جب ریاض ریتا کے گھر پہونچا تو نو بج چکے تھے۔یہ جگہ بمبئی کے شہر سے کافی دور تھی۔بجلی کی ریل یہاں پورے پون گھنٹے میں پہونچتی تھی۔بمبئی کے نواح میں ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے قصبے آباد ہیں۔یہاں کا سمندر اپنی فطری حالت میں تھا جس کے ساحل پر دور تک ریت پھیلی ہوئی تھی۔زمین اونچی نیچی اور شاداب تھی۔ٹیلوں پر تاڑ اور ناریل کے اونچے اونچے درخت سر اٹھائے کھڑے تھے۔ان کے سائے میں نیچی نیچی عمارتیں بھی تھیں۔ان فطری مناظر کے ساتھ جہاں بجلی بھی تھی اور ٹیلیفون بھی اور وہ تمام آسانیاں اور آسائشیں مہیا تھیں جو بمبئی کی طرح بڑے شہروں میں ہوتی ہیں۔ریتا کو سمندر کے کنارے ایک کوٹھی میں دو کمرے مل گئے تھے۔ایک کمرے میں وہ خود رہتی تھی اور دوسرے میں اس نے سامان بھر رکھا تھا۔
کمرے کی دیوار پر کسی چینی مصور کی بنائی ہوئی صرف ایک تصویر لگی تھی۔تصویر سے مصور کے قلم کی طاقت کا اندازہ ہوتا تھا۔رنگوں کے امتزاج نے تصویر میں ایک خیالی اور رومانی کیفیت پیدا کردی تھی۔یہ ایک عورت کا سر تھا جس کی آنکھیں چہرے کے تناسب سے بڑی معلوم ہوتی تھیں لیکن ان میں اتنی کشش تھی کہ وہ ہر آنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی تھیں۔ریاض نے محسوس کیا کہ تصویر کی آنکھیں اس کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہیں اور کچھ کہنا چاہتی ہیں۔دوسری تصویر ایک چینی مرد کی تھی وہ ریتا کے پلنگ کے سرہانے لکڑی کی ایک چھوٹی سی مزی پر رکھی ہوئی تھی۔
ریٹا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ریاض سے کہا۔’یہ میرے شوہر کی تصویر ہے۔‘اورپردہ اٹھا کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
دیوار سے لگی ہوئی ایک کتابوں کی الماری تھی جس کے پاس ہی ایک میز پر ریڈیو رکھا تھا۔الماری پر ایک گلدان میں کچھ پھول لگے ہوئے تھے جن کا ترچھا سایہ دیوار پر پڑرہا تھا اور گلدستے سے بھی زیادہ خوبصورت معلوم ہورہا تھا۔
ریاض نے کمرے کی حالت سے ریتا کے کردار کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔لیکن وہ ناکام ہوگیا۔وہاں کی ہر چیز میں ریتا کے مزاج کی سادگی جھلک رہیت ھی۔پھر بھی وہ ریاض کو پُراسرار معلوم ہوئیں۔ان پر رات کی نرم پرچھائیں کے سوا اور کوئی پردہ نہیں تھا۔لیکن ریاض کے داغ پر افواہوں نے بہت سے پردے ڈال رکھے تھے۔
ریاض نے جاکر ریڈیو کھول دیا۔وہ تھوڑی دیر تک سوئی کو ادھر اُدھر گھماتا رہا۔گانے، باجے اور تقریروں کی ملی جلی آوازیں آتی رہیں۔پھر ایک عورت کی آواز سنائی دی۔وہ بنگالی بول رہی تھی۔ریاض نے سوئی وہاں سے پھر ہٹادی۔
دوسرے کمرے سے ریتا کی آواز آئی۔’ریاض ریڈیو بند مت کرنا۔‘اور آواز کے ساتھ ساتھ ریتا پردے کے پیچھے سے نمودار ہوئی۔’ابھی ایک لڑکی بنگالی بول رہی تھی۔کون سا اسٹیشن تھا۔‘
’مجھے نہیں معلوم۔میں تو یونہی سوئی گھمارہا تھا۔‘
’میرے خیال میں وہ سنگاپور تھا۔‘یہ کہہ کر ریتا نے ریاض کا ہاتھ ریڈیو کے سوئچ سے ہٹادیا۔اور خود سوئچ گھمانے لگی اور تھوڑی دیر میں اس نے اس بنگالی آواز کو گرفتار کرلیا ، وہ ایک کرسی پر بُت بن کر بیٹھ گئی اور تقریر سننے لگی۔
ریاض کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ یہ کس کی آواز ہے اور کیا کہہ رہی ہے۔اس نے پوچھا۔’ریتا یہ کیسی تقریر ہے؟‘لیکن ریتا جیسے کھوگئی تھی۔اس تک ریاض کی آواز نہیں پہونچ سکی۔ریاض اس کے چہرے کا اتار چڑھائو دیکھ رہاتھا۔اس نے اپنے نیچے کے ہونٹ کو آہستہ آہستہ باہر نکالا پھر اپنے ہونٹوں کو زور سے بھینچ لیا۔اس کی آنکھیں اس وقت بالکل جامد تھیں اور شیشے کی مصنوعی آنکھوں کی طرح معلوم ہورہی تھیں۔
تقریر میں مہاتما گاندھی، مہادیو دیسائی اور کستوربائی کے نام بار بار آتے تھے۔ صبح اخبار مٰں مہادیو دیسائی کے مرنے کی خبر چھپی تھی۔ریاض سمجھ گیا کہ یہ جاپانی ریڈیو کی تقریر ہے۔لیکن ریتا اسے اتنے شوق سے کیوں سن رہی تھی؟
تقریر ختم ہوگئی۔ریتا نے ریڈیو بند کردیا۔اس کے چہرے پر ایک تشنجی کیفیت تھی۔اس نے آہستہ سے پوچھا۔’کیا کستور بائی بھی مرگئیں؟‘
’میں نے تو خبر پڑھی نہیں۔کیا ریڈیو نے خبر دی ہے؟ یہ تو جاپانی ریڈیو تھا۔‘
’ہاں سنگاپور۔تمہیں معلوم ہے یہ میری بہن بول رہی تھی؟‘
’تمہاری بہن؟‘ریاض نے حیرت سے پوچھا۔
’ہاں وہ وہیں رہ گئی ہے اور جاپانیوں کے پنجے میں پھنس گئی ہے۔کوئی ہندستانی اتنا ذلیل کیسے ہوسکتا ہے۔‘اس کے لہجے میں بلا کی تلخی اور نفرت تھی۔
’تقریر میں اور کیا تھا۔‘
’ہوگا کیا۔ہندستان میں بغاوت کرو۔ریل کی پٹریاں کاٹو۔پیداواربند کرو۔انگریزوں سے کستوربائی اور مہادیو دیسائی کی موت کا انتقام لو اور جاپانی فوجوں کے لیے راستہ صاف کرو۔‘اس کی آواز ایک دم سے تیز ہوگئی اور وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگی۔’میں جانتی ہوں جاپانیوں کے مظالم۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔میں نے اپنے شوہر کی موت دیکھی۔چینی بچوں کا قتل دیکھ، عورتوں کی بے عزتی ہوتے دیکھی، سنگاپور میں سبھی نے دیکھا۔پھر بھی میری بہن ریڈیو پر ان کی تعریفیں کررہی تھی۔مجھے تو جاپانی کے نام سے بھی نفرت ہے۔‘
’کستوربائی کے مرنے کی خبر تو غلط معلوم ہوتی ہے۔‘ریاض نے ریتا کو خاموش کرنے کے لیے کہا۔اس نے ریتا کو اس جوش سے باتیں کرتے کبھی نہیں سنا تھا۔
ریتا بغیر جواب دیے اٹھ گئی اور کونے سے جاکر اپنا ستار اٹھالائی۔’تمہیں گانے سے دلچسپی ہے؟کھڑکی کا پردہ اٹھا دو تو باہر سے ہوا آئے گی۔‘
ریاض نے کھڑکی کا پردہ سرکا دیا۔ریتا اپنے پلنگ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئی اور گود میں ستار رکھ کر بجانے لگی۔اس کا پورا جسم، پورا وجود ستار کے تاروں کے ساتھ لرز رہا تھا۔وہ تھوڑی دیر تک خالی ستار بجاتی رہی پھر اس پر ٹیگور کا ایک گیت گانے لگی۔
دن ڈھل چکا ہے
زمین پر رات کی پرچھائیں پڑرہی ہے
چشمے پر جاکر گاگر بھرنے کا وقت آگیا ہے
شام کی ہوامیں پانی کا غمگین گیت تیر رہا ہے
اس کی آواز مجھے باہر بلا رہی ہے
سونی گلی میں کوئی راہ گیر نہیں
ہوا چل رہی ہے
دریا میں بے تاب لہریں پھل رہی ہیں
معلوم نہیں میں گھر لوٹ کر واپس آئوں گی یا نہیں
نہ معلوم مجھے کون مل جائے
وہاں گھاٹ پر ایک اجنبی آدمی اپنی
چھوٹٰ سی کشتی میں بیٹھا ہوا ستار
بجارہا ہے۔
ریتا گارہی تھی اور موسیقی ریاض کے رگ و پے میں سمائی جارہی تھی۔ریتا کے ایک طرف گردن جھکادینے کی وجہ سے اس کی گندھی ہوئی چوٹی اس کے سینے پر آپڑی تھی۔ریاض بغیر کسی ارادے کے اس سے کھیلنے لگا۔ریتا گائے جارہی تھی اور ریاض اس کی چوٹی کھولے جارہا تھا۔ریتا نے ریاض کو کنکھیوں سے دیکھا اور پھر ستار کو دوسرے کندھے پر لٹا کر بولی۔’کیا کررہے ہو؟‘
’تمہارے بالوں سے کھیل رہا تھا۔نہ کھیلوں؟‘
ریتا نے اس کے ہاتھ پر اپنا رخسارہ رکھ دیا۔ریاض نے دیکھا کہ اس کی گردن پر دو نشان ہیں۔’یہ نشان کیسے ہیں؟‘اس نے پوچھا۔
جاپانی گھر میں گھس آئے تھے۔ میں اکیلی تھی۔اس وقت میری سمجھ میں کچھ نہ آیا اس لیے میں نے چاقو سے اپنی گردن کاٹنے کی کوشش کی تھی۔یہ اسی کے نشان ہیں۔‘
ریاض نے اپنے ہونٹ اس نشان پر رکھ دیے۔ریتا نے ستار زمین پر رکھ دیا اور اپنی انگلیوں سے ریاض کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔
اس رات کے بعد سے ہر رات اس کمرے کے اندر حسن عود و عنبر کی طرح محبت کی آگ میں جلتا تھا اور اس کی خوشبو سے ساری فضا معطر ہوجاتی تھی۔ریاض ریتا کے گندھے ہوئے بالوں کو کھول دیتا اور پھر اس کی نرم گردن پر اپنا سر رکھ کر اس کے بالوں سے اپنا منہ چھپالیتا۔
’مجھے تم سے ڈرلگتا تھا ریتا۔‘
’میں بھی تم سے ڈرتی تھی ریاض۔‘
'مگر اب ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔یہ عمر بھر کا پیمان ہے۔اب تمہیں کوئی دکھ نہیں دے سکتا۔' یہ کہہ کر ریاض بڑی محبت سے ریتا کو پیار کرتا۔ریتا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے۔
باہر سے سمندر کے سسکیاں بھرنے کی آوازیں آتیں۔کبھی کبھی جب پانی زور سے آکر ساحل سے ٹکراتا تو ایک چیخ سی سنائی دیتی تھی جو ہوا کی سنسناہٹ میں ڈوب جاتی تھی۔
تھوڑی دیر کمرے کی فضا بوجھل سی رہتی۔پھر اس میں ہلکا سا نور بکھر جاتا اور ریتا کی آنکھیں ہنسنے لگتیں۔دیوار پر لگی ہوئی چینی عورت کی تصویر کی آنکھیں بھی ہنستیں۔ہلکی ہلکی روشنی میں ریتا کی آنکھیں اس طرح چمک اٹھتیں جیسے ان میں دوبارہ آنسو بھر آئے ہوں لیکن اس وقت بھی ان میں مسکراہٹ ہوتی تھی ہلکی، نرم، چمکدار مسکراہٹ جو اس کی آنکھوں سے ستاروں کی روشنی کی طرح نیچے اترتی اور رخساروں پر بکھر جاتی۔اس کے ہونٹ لرزتے لرزتے گلاب کی کلی کی طرح کھل جاتے پھر ریتا ریاض کے بازئوں سے نکل جاتی اور کسی کتاب سے کوئی نظم پڑھ کر سنانے لگتی۔
کبھی کبھی وہ دور دراز ملکوں کی باتیں کرنے لگتی۔'ریاض ہم تم کبھی وہاں چلیں گے۔'
ریاض مھسوس کرنے لگتا کہ ریتا اس سے دور ہٹ رہی ہے اور اتنی دور ہوتی جارہی ہے کہ ریاض کا تخیل بھی اسے نہیں چھو سکتا۔
'تم مجھے چھوڑ کر چلی جائو گی ریتا۔'ریاض بچوں کی طرح کہتا۔
'نہیں ریاض، تمہیں چھوڑ کر میں کیسے زندہ رہوں گی۔'
پھر ریتا غمگین ہوجاتی۔'تم مجھ سے زیادہ دنوں تک محبت نہیں کرسکوگے۔'باہر سے سمندر کے سسکیاں بھرنے کی مسلسل آوازیں آتی رہتی تھیں۔
٭٭٭
مشمولہ 'نیا ادب'ترقی پسند مصنفین کی سہ ماہی کتاب
ایڈیٹر :سبط حسن، پیوپلس پبلشنگ ہائوس، بمبئی نمبر 4
1 تبصرہ:
حیران کن انکشاف ہے جناب ۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں