ہفتہ، 31 جنوری، 2015

فکشن میرے عہد کا:محمد حمید شاہد

اردو افسانے کی تنقیدی کشاکش سے باہر پڑے ایک بڑے افسانہ نگار نیر مسعود پر ڈھنگ سے بات کرنا یوں آسان نہیں ہے کہ اس صنف کا ناقد تو اَفسانے کے حوالے سے اٹھنے والے وقتی رجحانات اور فکری رویوں پر بات کرکے الگ ہو جانا چاہتا ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اس طرح کے فوری وسیلوں اور ہنگامی رویوں سے نیر مسعود کے اَفسانے کا کوئی رشتہ بنتا ہے نہ اس طرح اس کے اَفسانے کو سمجھنا ممکن ہے ۔ میں نے اس باب میں پہلے ہی گزارش کر رکھی ہے:
’’ اس کے ہاں اَفسانہ زندگی کے وسیع و عریض علاقے سے ایک قطعے کی صورت الگ ہوتا ہے ‘اپنے سارے تہذیبی رنگوں‘ تحیر اور اس اسرار کے ساتھ جو مَتن میں پوری طرح رچا بسا ہوتاہے۔ ایسی فضا رومان پرستوں کے ہاں ممکن تھی نہ ترقی پسندوں کے ہاں۔ علامت اور تجرید کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کی سانسیں تو دوصفحوں کے اَفسانے ہی میں اکھڑنے لگتی تھیں لہٰذا جو بھید بھنور نیر مسعود میں افسانوں کا وصف خاص ہے ‘ ان کے لیے بھاری پتھر ہوجاتا ہے جسے وہ چوم کر چھوڑ دیتے ہیں۔ چوں کہ ہمارے اَفسانے کی تنقید کسی ایک وقت کے مخصوص دورانیے میں ایک ہجوم یا گروہ کے وقتی رجحانات پر مباحث اٹھانے کی خوگر رہی ہے اس لیے نیر مسعود کے اَفسانے کی بھید بھری فضا اور تہذیبی مہک کے سرمائے کو سمیٹنے والی نثرسے نامانوس رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نیر مسعود کے اَفسانے ایک پورے تہذیبی علاقے کی دریافت سے متشکل ہوتے ہیں ۔ کہانی کا مرکز اس کے ہاں مَتن کے کسی ایک حصے میں نہیں بلکہ لا مرکز میں ہوتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ اس کی کہانیاں پڑھنے کے بعد قاری کا دھیان کسی فکر‘ خیال یا احساس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا، نہ واقعات میں علت ومعلول کے رشتے تلاش کرنے لگتا ہے بلکہ یوں ہے کہ بیان ہونے والے زمانے ‘ دکھائے جانے والے مناظر اور تراشے جانے والے کردار قاری کے وجود کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ (۱)
جی، جس قاری کی یہاں بات ہو رہی ہے ، وہ ذرا الگ مزاج کا ہے۔ اچھا، اس مزاج کے قاری کو آپ اس نوع کے افسانے سے الگ کرکے دیکھنے کاتصور بھی نہیں کر سکتے جسے لکھنا محض اور صرف نیر مسعود کا وتیرہ ہے ۔ جب وہ ’’معیاری ادب‘‘ اور ’’معتبر قاری‘‘ جیسی اصطلاحات وضع کر رہا ہوتا ہے تو نہ صرف وہ ادب کی ذیل میں بالعموم شمار کی جانے والی بہت ساری تحریروں کورد کررہا ہوتاہے ، انہیں غیر معیاری کے خانے میں بھی رکھ دیتا ہے ، انہیں بے حیثیت سمجھتا ہے اور اس طرح کے نام نہاد ادب کے قاری کو ’’عام قاری ‘‘کہہ کر اس سے تخلیقی سطح پرکوئی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتا۔ میں شاید ذرا ڈھنگ سے نیر مسعود کی بات سمجھا نہیں پایا ہوں ۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ اس کے تخلیقی قرینے کو سمجھنے کے لیے پہلے اس کے نکتہ نظر کو اسی کے لفظوں میں سمجھنے کی کو شش کی جائے ۔ نیر مسعود نے یہ باتیں کچھ سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کہی تھیں۔ ایک سوال کے جواب میں اس کا کہنا تھا:
’’اصلاً سب سے پہلے افسانہ نگار خود اپنا قاری ہوتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو معتبر قاری جانتا ہے اور اپنے پر دوسروں کا قیاس کرکے سمجھتا ہے کہ جو تحریر اُسے پسند آئے گی اس کو دوسرے معتبر قاری بھی پسند کریں گے۔ بعد میں یوں بھی ہوگا کہ جو قاری اُس کی تحریر کو پسند کریں گے انہیں وہ معتبر اور جو پسند نہیں کریں گے انہیں غیر معتبر سمجھ لے گالیکن افسانہ لکھتے وقت وہ اپنی ، یعنی معتبر قاری ، پسند کو نظر میں رکھے گا۔‘‘ (۲)
صاحب ، یہ بیان جو میں نے اوپرمقتبس کیا ہے ، اگرکسی نے نیر مسعود کے افسانے کو ڈھنگ سے نہیں پڑھا ، اوراس کا ایک معتبر قاری ہونے کے لیے جن جن کٹھن مقامات سے میں گزرا ہوں ، وہاں سے نہیں گزرا ،تو ممکن ہے وہ اس میں سے کوئی مضحک پہلو نکال لے کہ اِس میں تو اپنی ڈھب کے قاری کو ہی معتبر مانا گیا ہے ۔ ہاں، یہ بیان ایسے ماحول میں مضحک ہو سکتا ہے کہ جس میں ہر لکھنے والا اپنے آپ کو ’’معتبر ‘‘ سمجھتا ہو ۔ خیر،اِس جواب میں ایک سامنے کی بات ہے اور وہ یہ کہ نیر مسعود سب کے لیے نہیں لکھتا صرف اورمحض اپنے قاری کے لیے لکھتا ہے ۔
یاد رہے ، یہاں میں بات افسانے کی کر رہا ہوں ، ورنہ نیر مسعود نے اور بھی بہت سی تحریریں لکھ رکھی ہیں۔ میں نے، اس کی افسانے کی تنقید سمیت ان میں سے کچھ کو پڑھا ہے، ان تحریروں سے لطف کشید کرنے یا معنی اخذ کرنے کے لیے ، مجھ کچھ زیادہ ردو قبول سے گزرنا نہیں پڑا جتنا کہ اس کے افسانے پڑھتے ہوئے اس کے بیانئے کے آہنگ سے مانوس ہونے کے لیے (کم از کم اس مدت کے لیے کہ جب تک میں ان افسانوں کے ساتھ رہتا) خود کو بدل لینا پڑا ہے ۔ ان کے مضامین(۳) اور انیس(۴) پر الگ سے چھپنے والا کام میری نظر میں ہے یہ یقیناًلائق توجہ ہے ، اور افسانے کی مختصر سی تنقید بھی،۔ یہ سب تحریریں کسی الگ یا معتبر قاری کی تلاش میں نہیں ہیں ۔ تاہم مجھے نیر مسعود کے افسانوں کے باب میں تسلیم کرنا ہوگا کہ جس نوع کے یہ افسانے ہیں انہیں بس وہی لکھ سکتا تھاا ور انہیں ایک معتبر قاری ہی چاہیے ۔
نیر مسعود نے ہمیشہ موضوع کے مقابلے میں ہیئت کو اہمیت دی ، اور اسی نے اسے بالکل الگ مزاج کا تخلیق کار بنا دیا ۔ اچھا اس کا دعوا کرنے والے تو بہت ہیں کہ موضوع کو، اور فکر کو کہانی کی بنت میں دبا ہوا ہونا چاہیے ، مگر اردو کی کتنی کہانیاں ہیں کہ پڑھ چکنے کے بعد بھی ہم ان کے موضوع کی طرف نہیں لپکتے ان کی ہیئت کے اسیر رہتے ہیں ؟ میرا خیال ہے ، جب آپ ایسی کہانیاں تلاش کر نا چاہیں گے تو سوائے نیر مسعود کے ، شاید ہی کوئی اور نظر آئے ۔ نیر مسعود کے لگ بھگ سارے ہی افسانے ایسے ہیں جن کے موضوعات اوران کے بیانئے میں بہتی فکریات کو،(اگر کہیں وہ ہے ) تو ڈھنگ سے آنکا جا سکتا ہو ۔ کوئی بھی کہانی کہنے کے لیے عام طور پر اسے’’ راوی کردار‘‘ہی محبوب ہواہے ، ایک معتبر راوی ، جو کہانی کے وجود میں اتر کر سب وہ کچھ سوچ اور کر سکتا ہے ، جو خود افسانہ نگار کے اپنے مطالعے ،مشاہدے اورتخیل کا شاخسانہ ہوتا ہے۔ افسانہ ’’طاؤس چمن کی مینا‘‘ سے اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ لکھنو میں میرا دل نہ لگنااور ایک مہینے کے اندر اندر بنارس میں آرہنا ، ستاون کی لڑائی ، سلطان عالم کا کلکتے میں قید ہونا، چھوٹے میاں کاا نگریزوں سے ٹکرانا ، لکھنو کا تباہ ہونا ، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا ، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکار کو گھائل کرکے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آکر دروغہ نبی بخش کو گولی مارنا ، یہ سب دوسرے قصے ہیں ،اوران قصوں کے اندر بھی قصے ہیں ‘‘(۵)
اچھا، جس قسم کا راوی کردار نیر مسعود کو محبوب ہوا ہے اس کے لیے یہ دوسری نوع کے قصے بہت کم لائق اعتنا ہوئے ہیں کہ اس کی اپنی ساری توجہ ان بے حیثیت ہو جانے والے قصوں کے اندر رواں قصوں نے کھینچ رکھی ہے ۔ اندر والے ان قصوں کا بھی عجب قصہ ہے ۔ بظاہر دیکھی بھالی زندگی مگر ساتھ ہی ایک سرسراتا سرکتا ہوا بھید اور ماورائے قیاس علاقے سے وابستہ ہو جانے کی تاہنگ ۔ مجھے نہیں معلوم کہانی لکھنے سے پہلے نیر مسعود نے ان افسانوں کے سانچے یا نقشے بنائے تھے ، ان تفصیلات کو سوچا تھا ، جن سے یہ واقعات متشکل ہوئے یا ان جزئیات کو ذہن میں مرتب کیا تھا،جو کسی بھی واقعہ کی تفصیلات کو فکشن کے بیانیہ میں ڈھال رہی ہیں ۔ مجھے نیر مسعود اس قبیل کے افسانہ نگاروں میں سے لگتا ہی نہیں جو محض اور صرف کہانی کے پہلے جملے کے انتظار میں رہتے ہیں اور جوں ہی وہ جملہ لکھ لیتے ہیں، کہانی ، خود ان کی انگلی تھام کررواں ہو جاتی ہے۔ نہ مجھے وہ ایسے افسانہ نگاروں میں سے معلوم ہوتا ہے جو ایک خیال جھپاکے کو لے کر کہانی بنا لیا کرتے ہیں ، یا جہاں انہیں پہنچنا ہوتا ہے کہانی وہاں سے آغاز دے کر سارا ماجرا اوندھا لیا کرتے ہیں ۔ کہانی لکھنے کے یہی معروف چلن ہیں مگر ہو نہ ہو نیر مسعود پہلے کہانی کا ایک خاکہ بناتا ہے ، ایک صفحے کا نہیں یہ خاکہ بھی کئی صفحوں کا ہوتا ہوگا ۔ میں نہیں کہتا کہ کہانی مکمل ہونے کے بعد بھی وہ ویسی ہی ہوتی ہو گی ہے جیسا کہ اس نے خاکہ بنایا ہوتا ہے تاہم اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس طرح سہج سہج وہ لکھتا ہے، سوچ سوچ کر واقعہ آگے بڑھاتا ہے، تفصیلات بیان کرتا اور ان کی جزئیات کے قدرے نامانوس پہلوؤں سے بیانیہ میں جادو سا بھرتا ہے، اس سے کہانی میں وہ تندی اور اکھڑ پن رہتا ہو گا، جو کہانی کو کہیں اور لے چلے، جی میں کہانی کی جس تندی اور تانت کی بات کر رہا ہوں،وہ اس رواں زندگی سے پھوٹتی ہے جس کے ہم مقابل ہورہے ہوتے ہیں کہ افسانہ نگار کی منصوبہ بندی اس کے امکانات معدوم کر دیتی ہے ۔
صاحب ،یہ جو میں نے ایسا کہا ہے تواس لیے کہ جس ہیئت کو وہ مانتا ہے ، اس کے بھید میں پوری طرح نہیں جان پایا ہوں تاہم رہ رہ کر میرا دھیان امام جعفر صادق اور جابر بن حیان کی اس بحث کی طرف جاتا رہا ہے جس کا ایک ٹکڑا نیر مسعود نے اپنے افسانوں کے مجموعہ’’سیمیا‘‘ کے آغاز میں ہمارے پڑھنے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق معنی اخذ کرنے کے لیے بہ طور مقدمہ(۶) دے دیا ہے ۔
جعفر صادق نے کہا تھا :
’’اے جابر آیا تم دیوار کے اوپریہ نقش دیکھ رہے ہو اور مشاہدہ کر رہے ہو کہ یہ ایک منظم ہندسی شکل ہے؟ تم اس نقش کے مشاہدے سے لذت حاصل کر رہے ہو لیکن اس لیے نہیں کہ تم علم ہندسہ سے واقف ہو۔۔۔ بلکہ اس وجہ سے کہ تم اسے منظم پارہے ہو، کہ یہ ایک مکمل نقش ہے ، ۔۔۔ جو لوگ علم ہندسہ سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے وہ بھی اس نقش کو دیکھ کے محظوظ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ اسے منظم اور کامل پاتے ہیں ۔ ۔۔ اگر یہ نقش ، جسے میں اور تم دونوں دیکھ رہے ہیں ، غیر منظم ہوتا ۔۔۔تو کیا اس صورت میں بھی ہم اسی طرح اس کے مشاہدے سے محظوظ ہو رہے ہوتے ؟ ۔ ‘‘
جابر بن حیان کا جواب تھا:
’’ نہیں ‘‘
’’سیمیا‘‘ کے افسانے پیش کرتے ہوئے عین آغاز میں یہ جو مکمل نقش کاحوالہ آیا ہے اس کی بابت میں نے ایک تو اپنے تئیں یہ گمان کیا کہ ہو نہ ہو افسانہ نگار نے اپنے افسانوں کے لیے جوہمیشہ مکمل نقش سوچے ہوگے۔ دھیان میں اسی کتاب والے نام کے افسانے ’’سیمیا‘‘ (۷)کا درشت آنکھوں والا وہ بچہ آگیا ہے جس کے دونوں ہاتھ غائب تھے ۔ ہاتھوں کے بغیر پیدا ہونے والے اسی بچے کے لیے افسانے کے راوی کردار نے دیوار پر ہاتھوں کے نقش بنا رکھے تھے۔ بچہ دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑا ہوجاتا تو نقش کے سیاہ ہاتھوں کی جڑیں ٹھیک اس کے کندھوں سے مل جاتیں ۔گویا نقش مکمل ہو جاتا۔
تاہم یوں ہے کہ بہت جلد یہ کہانی بھی اِس قول کے ہندسی سانچے سے الگ ہو کر افسانہ نگار کی اپنی طے کی ہوئی ڈگر پر چل نکلتی ہے۔ کہانی کے وسط سے کچھ پہلے یہ نقش پہلے کی طرح پھر ادھورارہ جاتا ہے۔ نیر مسعود کی کہانی کا محض یہ ایک پڑاؤ ہے کہ اس میں وہ ایک غرقاب دوشیزہ، اور اس کی علامتی قبر کے علاوہ سیاہ کتا اور اس کا مالک بھی داخل ہو چکے ہیں جو کہانی کو ایک نئی ڈگر پر ڈال دیتے ہیں ۔اب اس کہانی کا حصہ ہے ایک مردہ میدان اور اس کی ویرانی ،ایک مکان جس کی ایک دیوار پر ہاتھوں کے نقش تھا اور جس کے دور افتادہ حصوں میں اس کا سامان ٹٹولا گیا تھا ، جی وہی مکان جو کہانی کے اس راوی کو چھوڑ دینا پڑا کسی کو اپنامالک جان کر، افسانہ یہ نہیں بتاتا کہ کتے کو مالک کو راوی کردار نے اپنامالک کیوں کہا ۔ بس وہ اس کے پیچھے پیچھے چپکے سے چلتا رہا۔ اس افسانے میں وہ محل بھی ہے،جو کہانی کا اہم پڑاؤ بنتا ہے،۔ وہ محل قدیم نہ تھا، دِکھتا قدیم تھا۔ زمین میں دھنسے چلے جانے کا احساس دلانے والا مگر عجب طرح کے بھید اچھالنے والا۔ حتی کہ کہانی میں سیمیا کا وہ نسخہ سامنے آتا ہے جس میں ایک ہڈی کو فضا میں لہرانے سے بادل امنڈ کر آتے اور برس کر نکل جایا کرتے ہیں ۔
یہ ایسی کہانی نہیں ہے جسے زندگی کی ایک قاش کہا جائے، کہ اس ایک قصے میں کئی قصے ہیں ۔معذوربچہ جان دے دیتا ہے تو ایک قصہ مکمل ہو تا ہے ۔ جس دوشیزہ کا کوئی تعاقب کر رہا تھا ، خاکستری پھولوں والے درخت کے نیچے بیٹھے گاؤں والوں کو ملنے والی ،وہ اس پار جانے کی للک میں پانیوں کا رزق ہوگئی اوراس کا غرقاب بدن نہیں ملا مگر اس کی علامتی قبر بنا لی گئی تو ایک اور کہانی بھی مکمل ہو گئی ۔ جب سیاہ کوا ،سیاہ بلی اور سیاہ بلی ، سیاہ کتے کا رزق ہو گئی اور وہ ہڈی حاصل کر لی گئی جسے فضا میں لہرانے سے بادل پلک جھپکنے میں افق پر ظاہر ہوتا اور سروں کے اوپر سے برستے ہو ئے گزرتا تھا ۔ ، پھر مرنے سے پہلے پاگل ہوجانے والے کتے کی لگائی ہوئی کھرونچ کے بعد کتے کے مالک کا تپ سے نڈھال ہو کر مر جانے سے بھی ایک اور کہانی مکمل ہوجاتی ہے ۔ کوئی نقاد چاہے تو اس افسانے کے ہر پڑاؤ سے کچھ نہ کچھ معنی اخذ کر سکتا ہے ،میں بھی ایسا کر سکتا ہوں ، مگرکروں گا نہیں کہ ٹکڑوں میں بٹے یہ معنی زندگی کی کسی ایک تفہیم کا دروازہ بہ مشکل ہی وا کرپائیں گے اور اس لیے بھی کہ افسانہ پڑھتے ہوئے میرادھیان اس طرح کے جتن ایک طرف رکھ دیتا ہے کہ جو چیز پڑھنے والوں کو اپنا اسیر رکھتی ہے وہ اس کی ہیئت ہے ۔
نیر مسعودکے خاکے اگر آپ نے پڑھ رکھے ہوں گے ، جی ’’ادبستان‘‘ (۸)کے ذریعہ سامنے آنے والے چند شخصی خاکے ، تو میری طرح آپ نے سوچاہوگا کہ ان میں سے کچھ کو تو افسانے کی ذیل میں بہ سہولت رکھا جاسکتا تھا۔ کیا ہوا نام حقیقی شخصیات کے تھے ، مگر جس طرح انہیں لکھا گیا تھا ، فکشن کی زبان میں اور اختصار کے ساتھ ، وہ افسانے ہی تھے۔ رشید حسن خان والا خاکہ، ڈاکٹر کیسری کشور والا اور دوسرے ۔ خیر، میرا دھیان ان خاکوں کی طرف یوں گیا کہ ان کی طوالت مناسب رہتی ہے۔ اتنی، کہ جتنی کسی افسانے کی ہو سکتی ہے۔ خاکے میں شخصیت کا جادو واقعہ کے بہاؤ کے زور پر چلتا ہے، بالکل اسی طرح کرداروں اور واقعات کو افسانے میں برتا جاتا ہے۔ ان خاکوں میں فردکی زندگی کا ایک معنوی دائرہ مکمل ہوجاتا ہے، افسانے میں کہانی بھی تو ایک دائرہ مکمل کیا کرتی ہے۔ اور آخر میں یوں ہوتا ہے کہ ایک مانوس فضا میں رہتے ہوئے آدمیت کی توقیر میں کچھ اور اضافہ ہو جاتا ہے یازندگی کی کوئی نئی جہت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ نیر مسعود کے افسانے کا یہ وظیفہ نہیں ہے ۔ اس کے افسانے کی ہیئت بھی بالکل مختلف ہے اور فضا بھی۔ بلکہ بالعموم یہ انوکھی فضا بندی ہی ہے جو اس کے افسانے کی ہیئت کو موضوع سے بے نیاز کردیتی ہے۔ اس کاطاقت ور تخیل ،اس کے راوی کردار کو اپنی مانوس زمین سے اٹھا کر ایک بھید بھری فضا میں پہنچادیا کرتا ہے۔ مثلاً دیکھیے ’’سیمیا‘‘ (۹)کا راوی کردار جس مکان میں رہ رہا ہے ، یا پھر جہاں اسے یہ مکان چھوڑ کر رہنا پڑا ہے وہ کتنا نامانوس ہوگیا ہے۔ یا پھر افسانہ ’’اوجھل‘‘(۱۰) کے واحد متکلم کو ایک مانوس فضا چھوڑ کر جس طرح کے مکانات میں اپنے خوفوں اور خواہشوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا ہوتی ہے ، یہ سب کچھ اجنبیانے کا ایسا عمل ہے جس میں سے ماورائیت کا عنصر جھلک دینے لگتا ہے ۔’’ اوجھل ‘‘میں جنس ، خواہش کی شدت کی تظہیر کا وسیلہ ہوکر ایک الگ طرح کا مزا دیتی ہے ۔ عمر میں دوسال بڑی عورت کا بھرپور جسم ، جو دور کے رشتے میں ہمارے راوی کی خالہ ہوئی ، بزرگانہ انداز میں ملنے والی ، مگر اپنے نہائے ہوئے بدن سے اپنا قصہ کہنے والے کے بدن کے اندر خواہش کی شدت رکھ دینے والی۔ کہانی میں یہاں تک فضول عورتوں سے بھرا ہوا گھر ہے ، لہذا ماحول اجنبی نہیں لگتا ، جب خواہش’’ کوئی دیکھ لے گا‘‘ کی تکرار سے مات کھاتی ہے تو وقت کی وہ رفتارجو مکانوں کے اندر ہے ، اس وقت کی رفتار سے مختلف ہوتے محسوس کی گئی ہے ،جو باہر رواں دواں ہوتا ہے ۔ بلکہ ’’میں ‘‘ کا یہ کردار تو اس یقین کا اظہار بھی کرتا ہے کہ ایک ہی مکان کے مختلف حصوں میں وقت کی رفتار مختلف ہو سکتی ہے۔ ایک مکان سے نکلنے کے بعد اور دوسرے مکان تک پہنچنے ہوئے ماحول اجنبیانے، اس میں بھید بھرنے اورقاری کے تجسس کوبڑھانے کے عمل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس باب میں افسانہ’’اوجھل سے یہ ٹکڑا ملاحظہ ہو:
’’ دوسرے دن میں ایک اور مکان کے سامنے کھڑا ہواتھا ۔ اس کادروازہ بھی بند تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی کھلی ہوئی بے باک آنکھ کی طرح میری آنکھوں کو گھور رہا ہے۔ کچھ دیر بعد میں اس مکان کے اندر گھوم رہا تھا ۔ مجھے اس کے ایک حصے میں جاتے ہوئے ایک جگہ خوف کا احساس یوا ۔ اب مجھے دوسرے احساس کا انتظار تھا اور یہی ہوا کہ مکان کے ایک اور حصے میں پہنچ کرمجھے محسوس ہونے لگا کہ میری کوئی بڑی لیکن نامعلوم خواہش پوری ہونے کو ہے‘‘(۱۱)
افسانے کے آخر تک پہنچتے پہنچتے یہاں بھی کئی کہانیاں مکمل ہوتی ہیں ۔ کئی مکان بدلتے ہیں ۔ خواہش اور خوف کے کئی تجربے ہوتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مقام آجاتا ہے کہ افسانے کا راوی بولنا ترک کر دیتاہے ۔ اس کا بستر خوف کے ٹھکانے کے اوپر ہے اور اسے گمان ہے کہ جہاں خوف ہے اس کے پاس ہی کہیں خواہش کا ٹھکانا بھی ہے۔ یا پھر شاید خوف اور خواہش کا ایک ہی ٹھکانا ہے ۔ جب تک اس کی تیمار دار کو اس سے ملایا جاتا ہے، تب تک وہ خوف اور خواہش کے اصل ٹھکانوں کو شناخت کر چکا ہوتاہے ۔ ایسے میں وہ خواہش اور خوف کے ٹھکانوں کو ذہن میں رکھ کر اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ اپنی حفاظت بھی کرے اور اپنی تیمار دار کی بھی ۔ میں نے یہ جملے پڑھے تو متن سے معنی بھی چھلک پڑے تھے مگر جب میں نے انہیں افسانے کے پورے متن سے جوڑنا چاہا تو اس افسانے کی شاندار ہیئت کے مقابلے میں بہت ہیچ لگے تھے ۔
نیر مسعود کے افسانوں کے کردار ، اپنی لیے ڈھالی جانے والی فضا میں پہنچ کر ویسے نہیں رہتے جیسا کہ وہ عام زندگی میں ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں ، افسانہ نگار کا بیانیہ انہیں مختلف کر دیتا ہے ، عجب طرح کا مختلف کہ بظاہر وہ ویسے ہی ہوتے ہیں جیسا کہ کوئی عام زندگی میں ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے مگر بیانئے کی بنت کے اندر اس میں ایک عجب داخل ہو جاتا ہے ۔ مثلاً دیکھئے افسانہ ’’نصرت ‘‘(۱۲) میں بھی نسائی کردار ہیں، عام طرح کے نسائی کردار مگر وہ مختلف بھی ہیں ۔ کہانی کا ایک دائرہ مکمل کرنے والی اس بدکار عورت کو دیکھئے ، کہ جس کے قصے کو افسانے کے آغاز میں رکھا گیا ہے۔ کتنا عام سا کردار ہے۔ بے توقیر اور بے وقعت ہوجانے والی عورت کا کردارجس پر بدکاری کی تہمت ہے ۔ مگر جس طرح اس بدکارعورت کا قضیہ بڑوں کے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات کو کئی جزئیات سے گوندھا جاتا ہے ، فضا بوجھل بنتی ہے ، بدکار عورت پانی کا گلاس خالی کرتی ہے ، راوی کا دھیان بڑوں کی گفتگو سے ہٹتا ہے اوراس قضیے کے بیان میں رخنے پڑ تے ہیں اس سے ایک اور طرح کی بدکار عورت وجود میں آتی ہے ۔بعینہ دوسرا نسائی کردار ،جو دراصل کہانی کے مرکز میں ہے ، یعنی ’’ نصرت‘‘وہ بھی وہ نہیں رہتا جیسا کہ اس طرح کی لڑکی کو ہونا چاہیے۔ وہ لڑکی جس کے پاؤں ایک گاڑی کے ٹائروں تلے کچلے گئے تھے ۔ جی، وہی نصرت جو چھوٹی پتیوں والے پرانے درخت تلے بیٹھی تھی اور جس کی زندگی میں غم خواری کاایک ایسا دن آیا تھا جو اسے نہیں بھول سکتا تھا ۔ کانچ کے اس گلاس کے ٹوٹنے کے بعد بھی نہیں کہ جس میں بدکار عورت نے پانی پیا تھا ،یا پھر کہانی کے راوی کردار نے اس بغلی دروازے کے دونوں پٹ مضبوطی سے آپس میں ملادیئے تھے، جس کے باہروہ بیٹھی ہوئی تھی ؛ سیاہ اوڑھنی کے نیچے مسخ ہو چکے پیروں والی نصرت ۔
افسانہ ’’مارگیر‘‘ (۱۳)کا مارگیر اگر چہ کہانی کا سب سے زیادہ توجہ پانے والا کردار ہے مگر وہ کہانی کا راوی نہیں ہے۔ اس کا راوی تو اسی مارگیر کا بعدمیں مددگار ہو جانے والا ’’میں‘‘ ہے جو قصے کو بیان کرتے ہوئے اس میں بھید بھرائی کررہا ہوتا ہے ۔ یاد رہے افسانہ’’ سیمیا ‘‘ کا واحد متکلم وہ مکان چھوڑنے پر مجبور ہوا جسے وہ اپنا مکان کہتا تھا، تو دریا کے نامانوس کنارے پر ایک اور مکان کا سیاہ ہیولا دکھائی دے رہا تھا، جس کے اندر بھی اندھیرا گھساہوا تھا ۔ بڑے دروازوں والا ، اوپر کو چڑھتے زینوں والا، جس میں ایسابوسیدہ بُرج تھا جس کے دروں کو لکڑی کے نئے پرانے تختے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،وہ تختے چلتی ہوا کے ساتھ بجتے تھے ۔ اور ہاں اس میں اس محل کا بھی ذکر تھا جو بعد میں کہانی میں ایک کردار کی طرح در آیا تھا ، وہ جو بوسیدہ نہ تھا مگر یوں لگتا تھا کہ بوسیدہ ہوگیا تھا یا شاید وہ بنایا ہی بوسیدہ گیا تھا ، زمین میں دھنستا ہوا محل ۔ یاد کیجئے کہ افسانہ ’’اوجھل‘‘ کے مرکزی کردار ’’میں‘‘ کو بھی اپنا گھر چھوڑ دینا پڑا تھا ، اور اب میں مارگیر کا ذکر کر رہا ہوں تو بتاتا چلوں کہ اس کا راوی کردار بھی ایک مری ہوئی لڑکی سے بھاگ رہا تھا۔ مکان پیچھے رہ گیا ، نئی بستیاں پیچھے رہ گئیں اور جنگل سامنے تھا ۔ آپ نے دیکھا ہر کہانی میں واحد متکلم ہے ، گھر سے دور ہوکر کہانی کے قضیے سے نمٹنے والا ۔’’ مارگیر‘‘ یوں مختلف ہے کہ اس میں جنگل در آیا ہے تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس میں بھید بھرے مکانوں کا ذکر سرے سے موجود نہیں ہے ۔ جب سامنے جنگل تھا تو مارگیر کا ’’میں‘‘ ذہن پر زور ڈال ڈال کر پیچھے رہ جانے والے اپنے مکان کے بیرونی کمرے میں سجے نوادر کی بابت سوچ رہا تھا ، دھات کا شیر جو پچھلی ٹانگوں پر کھڑا دھاڑ رہا تھا، سرخی مائل سیاہ مسالے کا بنا ہوا گھوڑا جس کے ہاتھ میں اب تلوار تھی نہ ترازو، سامنے کی دیوار والا کیکڑا ، جو ذرا سا چھونے سے ہلنے لگتا اور رینگتا ہوا معلوم ہوتا اور وہ چھوٹا سا محل ؛محرابوں ،ستونوں اور برجوں والا۔ گر کر کھنڈر ہو جانے والے کسی بڑے محل کا چھوٹا نمونہ یا پھر اس کی یاد گار۔ تو یوں ہے کہ عمارت اور اس کا نوادر والا کمرہ اس کہانی میں بھی کردار بنتے ہیں ۔ بھیدبھرے کردار۔ اس بھید کا ایک اور حوالہ نوادر والے کمرے کا آخری اضافہ وہ محمل ہے جسے ایک وحشی سا شخص وہاں لایا تھا ،کہانی کے ’’میں‘‘ نے اسے اپنی یادداشت کا آخری اضافہ کہا ہے کہ یہ وقوعہ اس کے ہوش سنبھالنے کے بعد کا تھا ۔ محمل لانے والے شخص کی شروع میں خوب خاطر تواضع ہوئی مگر بعد میں وہ رسوا کرکے نکالا گیا ، کیوں ؟ اس طرح کے سوالات کانیر مسعود کے افسانوں میں کوئی جوا ب نہیں رکھا جاتا ، بلکہ یوں ہے کہ اس طرح کے سوالات کے جوابات رکھنا ان افسانوں کی سرشت میں رکھا ہی نہیں گیا ہے ۔
ماجرا کہنا اپنی پوری جزیات کے ساتھ ، اور کہانی کے اندر سے ایک اور کہانی کو آغاز دے کر اس میں ایک الگ طرح کی فضا بنالینا نیر مسعود کے محبوب قرینوں میں سے ہے، سو یہاں بھی یہی ہوا ہے۔ رنگ برنگے کیڑوں کا ذکر۔ سانپوں اور اژدہوں کا کاٹنا۔ زہر کا اپنا اثر دکھانا۔ شکار کا تڑپنا۔ سانپوں کے سروں کو کچل دیا جانا۔ آدمیوں کا مر جانا یا بچ نکلنا۔ عجب طرح کی خوشبوؤں کا اٹھنا۔ زہرہ مہرہ سے علاج جسے بدن کازہر چڑھ جاتا ہے، آدمیوں کی زندگیاں بچانے والے زہرہ مہرہ کا آخر میں گم ہونا۔ ہجوم کا مارگیر کی طرف بڑھنا۔ ’’مارگیر مارگیر‘‘ کی سرگوشیوں کا اٹھنااور اس کے آنے پر سب کا دم سادھ کر دیکھنا۔ مارگیرکا کہانی کے آخر میں مکان کے اندرونی حصوں میں ،انہی سانپوں کے بیچ مردہ پایا گیا تھا، جن کے کاٹے کا وہ علاج کیا کرتا تھا:
’’ خالی بستر کے قریب فرش پر مارگیر پڑا ہواتھا۔ اس کا ایک ہاتھ آگے کو بڑھا ہوا تھا، دوسرا ہاتھ بستر کو اس طرح دبوچے ہوئے تھا کہ آدھا بستر نیچے کی طرف ڈھلک آیا تھا ۔‘‘(۱۴)
میں نہیں سمجھتا کہ پہلے کوئی موضوع سوچا گیا اور پھر اس افسانے کا ابتدائی نقشہ بنایا گیا۔ یہ نقشہ بنانے والی بات بھی میں نے نیر مسعود سے لی ہے۔ اچھا، یہ بھی نہیں کہوں گا کہ اس افسانے میں کسی موضوع کو برتا نہیں گیا تاہم یہ ماننا ہوگا سارے ماجرے میں ، اور قصوں کے اندر قصوں میں ، اس کی تفصیلات میں اور دور تک لے جاتی جزئیات میں، کوئی موضوع مضبوطی سے قائم نہیں کیا گیا ہے ۔ کہانی پڑھتے ہوئے محسوس تو ہوتا ہے کہ کچھ کہا جا رہا ہے، بہت اہم موت اور زندگی جیسا ، مگر علت اور معلول کا جبر متن کے بیچ رواں قصوں سے سانپ کی طرح سرک کر کہیں نکل جاتا ہے۔
’’گنجفہ‘‘ (۱۵)کی کہانیوں میں بھی اس تخلیقی چلن کو نہیں بدلا گیا ’’آزاریاں ‘‘ (۱۶)میں بس یوں ہوا ہے کہ کہانی کا راوی کردار گھر بدر نہیں ہوا باپ کا گھراس کی بہن کو چھوڑنا پڑا ہے ، سارے ناطے توڑ کر۔ یوں کہ ایک مدت بعد ملنا بھی خواب میں ملنے کا سا ہو جاتا ہے۔ تاہم ’’مسکینوں کا احاطہ‘‘(۱۷) کے ’’میں‘‘ کو گھر چھوڑنا پڑا اور ایسی فضا کا ناقابل یقین حد تک طویل عرصہ کے لیے حصہ ہونا پڑا ہے جس نے کہانی کو اس دھج کا افسانہ بنا دیا جیسا کہ نیر مسعودنے اسے بنانا چاہا ۔
افسانہ ’’ دست شفا‘‘ (۱۸)کو بھی نیر مسعود کا محبوب راوی ، روایت کر رہا ہے ۔ وہی ،جسے ہم راوی اور کہانی کے ایک کردار کے طور پرنہ صرف لگ بھگ نیر مسعود کے ہر افسانے میں شناخت کر چکے ہیں ،اس سے مانوس بھی ہو چکے ہیں۔ بتا چکا ہوں کہ افسانہ نگار نے اپنے اس محبوب راوی کا یہ مقدربنارکھا ہے کہ اسے بہ ہر حال ایک نہ ایک روز اپنے گھر کو چھوڑناہوگا اور ایک الگ طرح کی مشقت میں پڑنا ہوگا ۔سو ، اس افسانے کا راوی کردار بھی گھر سے نکلتا ہے ، یوں ، جیسے وہاں سے جنازہ اٹھایا گیا ہو۔ تاہم جس طرح افسانہ ’’مسکینوں کا احاطہ‘‘ میں، اپنی محبت کرنے والی ماں کو پیچھے چھوڑ کر احاطے میں جابسنے والے کی طویل گھر بدری کھلتی ہے، بالکل اسی طرح راوی کا اپنی مر جانے والی دلہن کا مقبرہ بنوا کر اس میں بند ہوجانا، کچھ اس طرح کہ لوگ دیوار پھاند کر اندر اتریں اور راوی کو اپنی دلہن کی قبر سے لپٹا غشی کی حالت میں دیکھیں، توایسا پڑھنے والے کواس لیے ہضم نہیں ہوتا کہ یہ والا واقعہ چہلم کے بعد ہو رہا تھا اور اس کے بیچ مقبرہ بنوانے کی مصروفیت بھی موجود تھی۔ خیر اس طرح کے واقعات کو جس طرح نیر مسعود نے جزیات سے افسانے کے بیانئے کا حصہ بنایا ہے ، وہ کسی جواز کے مطالبے کے بغیر اور کہانی کے مجموعی مزاج کے حوالے سے قبول کرنا ہی پڑتا ہے ۔
افسانہ ’’دُنبالہ گرد‘‘ (۱۹)کے وسط میں کسی کا بے ہنگام مرناہے ، درختوں کے جھنڈ میں ، اور مرنے والا اپنے پیچھے ہاتھ کے کرگھے پر بُنے ہوئے کپڑے کا مضبوط تھیلا چھوڑ جاتا ہے جس میں دوائیں ہیں، رسیدیں اور خطوط ہیں ۔ یہ سب کچھ اس کہانی کے’’ راوی کردار‘‘ نے خوف زدہ ہو کر جلا ڈالا ۔ اس کہانی کا مزاج بھی ان واقعات نے نہیں بلکہ اس کے راوی اور بیانئے نے بنایا ہے ۔ افسانہ ’’ کتاب دار‘‘ (۲۰)کا راوی کہانی سے باہر ہے شاید یہی سبب ہوگا کہ افسانہ طوالت سے بچ گیا ۔ تاہم ایک خاص فضا بنانے کو یہاں بھی کتاب خانے میں پڑی ہوئی کتابیں تیزی سے بوسیدہ ہو رہی ہیں ۔ کتاب دار کو صاف نظر نہیں آتاکہ اس بوڑھے کی آنکھیں دھندلا گئی ہیں۔ چھت سے کچھ آگے کو نکلا ہوا پرنالہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے اور بارش کا پانی دیوار سے ملا ملا بہتا ہے۔
افسانہ ’’گنجفہ‘‘ (۲۰)کی کہانی کو ’’خطوط مشاہیر‘‘ کے حوالے سے ایک عبارت درج کرنے سے شروع کیا گیا ہے ۔ ماں بیٹے کی اس کہانی کا راوی بیٹا ہے ، جسے ماں کے لاڈ نے اپنی زندگی میں کچھ کرنے نہ دیا ۔ ابا پہلے مر گیا تھا اس کی ماں کی کمائی کھاتے کھاتے؛ اب بیٹا ماں کی کمائی کھا رہا تھا ، اور ماں ہے کہ قسطوں میں اپنے وجود کو مرتا ہوا دیکھنے کے باوجود حوصلہ ہارنے پر تیار نہیں۔ اس بنیادی قصے میں بھی ایک اور قصہ بہت نمایاں ہوا ہے ، آتش بازی اوراگربتی کے بیچ ، پیپل والے مکان میں اپنے معذور ہو جانے والے باپ کے ساتھ رہنے والی حسنی کا قصہ ،جو آنے والے جاڑے میں تیس برسوں کی ہو جانے والی تھی ۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ حسنی اور اس کے باپ لاڈلے کا قصہ۔ اس کہانی کا مزاج بنانے کے لیے جہاں مسلسل کھانسنے ، چکن کاڑھنے اور اپنے بیٹے سے بے پناہ محبت کرنے والی اماں کا کردار بہت اہم ہوگیا ہے، وہیں لاڈلے کا لکڑی کا صندوق، اس میں بھری ہوئی کترنیں، منجن کی شیشیاں، ہاتھ کے نمونوں کی کچی پکی نقلیں ، تام چینی کا تسلہ جس میں کبھی تیل میں تر بتر سیاہی مائل لکڑی کے بھدے بھدے بچھو اور گرگٹ ہواکرتے تھے، بھی کرداروں کا منصب ادا کر رہے ہوتے ہیں ۔
’’پاک ناموں والا پتھر‘‘ (۲۱) میں جو راوی کردار ہے ، اگرچہ وہ گھر سے ،بے گھر نہیں ہوا ، مگر یوں ہے کہ وہ بوسیدگی کی زد میں آئے ہوئے گھر کے اندر ہی اکیلا ہو گیا ہے۔ سو یہاں زنگ آلود قفلوں کے لیے زنگ آلود کنجیاں ہیں ۔پرانا سامان کاٹھ کباڑ کی طرح بکھرا پڑا ہے اور لکڑی کے صندوقوں میں گودڑ بھرے ہوئے ہیں ، انہیں میں سے ایک صندوق سے لمبی کترنوں میں لپٹی ہوئی بدرنگ تانبے کی بیضوی ڈبیا سے پاک ناموں والا وہ پتھربرآمد ہوتا ہے جو کہانی کے آخرسے ذرا پہلے یوں غائب ہوجاتا ہے جیسے ’’مارگیر‘‘ افسانے میں زہرہ مہرہ گم ہو گیا تھا ۔ تاہم آخر تک آتے آتے، پاک ناموں والا پتھر راوی کے ہاتھ لگ جاتا ہے؛ عین اس وقت جب اس کے سینے میں درد اٹھا تھا اور وہ سینہ سہلا رہا تھا ، کہ وہ تو ہمیشہ کی طرح اس کے گلے میں پڑا ہوا تھا ۔
ہم نیر مسعود کی کہانیاں پڑھتے چلے جاتے ہیں ، ایک ایک کرکے اور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی منطق سے واقعہ آگے بڑھاتا ہے ، اسے پہلودار بناتا ہے، اس کے سلسلہ واقعات میں سے علت و معلول کا رشتہ کسی حد تک منہا کرکے وہاں ایک طرح کا عجب رکھ دیتا ہے ، یوں کہ وہ کہانی کی رمز ہو جائے یا پھر رمز ہونے کا سوانگ بھرے۔بیانیہ علامتی لگے ،مگراس طرح کہ موضوع کھلنے نہ پائے اور ہیئت کی ہیبت قائم رہے۔ اور یہ ہیئت کی ہیبت ہی توہے جس نے نیر مسعود کو بالکل الگ دھج کا افسانہ نگار بنا دیا ہے۔
*235*
حوالہ جات
۱ ۔ محمد حمید شاہد، اردو افسانہ صورت و معنی، اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،جولائی ۲۰۰۶ء ، ۲۱۳۔۲۱۴
۲ ۔ نیر مسعود،افسانے کی تلاش،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء،۲۴
۳ ۔ نیر مسعود،منتخب مضامین،کراچی، آج،۲۰۰۹ء
۴ ۔ نیر مسعود،انیس(سوانح)،کراچی، آج،۲۰۰۵ء
۵۔ نیر مسعود،طاؤس چمن کی مینا،لکھنو،۱۹۹۸ء
۶ ۔ نیر مسعود،مقدمہ، مشمولہسیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۴
۷۔نیر مسعود،سیمیا(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۷۔۲۰۸
۸۔نیر مسعود،ادبستان(شخصی خاکے) ،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء
۹۔نیر مسعود،سیمیا(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۷۔۲۰۸
۱۰۔ نیر مسعود،اوجھل(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۵۔۴۰
۱۱۔ نیر مسعود،اوجھل(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۲۱
۱۲۔ نیر مسعود،نصرت(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۴۱۔۶۰
۱۳۔ نیر مسعود،مارگیر(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۶۱۔۱۱۶
۱۴۔ نیر مسعود،مارگیر(افسانہ) مشمولہ سیمیا،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء،۱۱۵
۱۵۔ نیر مسعود،گنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸
۱۶۔ نیر مسعود،آزاریاں(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۲۱۷۔۲۲۸
۱۷۔ نیر مسعود، مسکینوں کا احاطہ،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۸۱۔۱۹۸
۱۸۔ نیر مسعود، دشت شفا،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۴۱۔۱۷۰
۱۹۔ نیر مسعود، دنبالہ گرد،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۹۹۔۲۱۶
۲۰۔ نیر مسعود، گنجفہ،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۵۔۴۰
۲۱۔ نیر مسعود، پاک ناموں والا پتھر،(افسانہ)،مشمولہگنجفہ ،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸،۱۲۱۔۴۰ ۱
کتابیات
۱ ۔ محمد حمید شاہد، اردو افسانہ صورت و معنی، (تنقید) اسلام آباد، نیشنل بک فاؤنڈیشن،جولائی ۲۰۰۶ء
۲ ۔ نیر مسعود،سیمیا(افسانے)،قوسین ،لاہور۱۹۸۷ء
۳۔ نیر مسعود،طاؤس چمن کی مینا،(افسانے)،لکھنو،۱۹۹۸ء
۴ ۔ نیر مسعود،انیس(سوانح)،کراچی، آج،۲۰۰۵ء
۵۔ نیر مسعود،گنجفہ (افسانے)،کراچی ،شہرزاد،۲۰۰۸
۶ ۔ نیر مسعود،منتخب مضامین،کراچی، آج،۲۰۰۹ء
۷۔ نیر مسعود،افسانے کی تلاش(تنقید)،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء
۸۔نیر مسعود،ادبستان(شخصی خاکے) ،کراچی، شہرزاد، جون ۲۰۱۱ء

جمعہ، 30 جنوری، 2015

انعام ندیم سے دس سوالات

تخلیق کاروں سے بات کرنے میں ہمیشہ کوئی اہم بات سامنے آتی ہے۔ان کی بے پروائی، ان کی لاابالی، ان کی سچائی اور ان کی گفتگو بہت کچھ سیکھنے سمجھنے کی جانب مائل کرتی ہے۔انعام ندیم کا نام ایسے ہی اہم تخلیق کاروں میں شمار ہوتا ہے۔وہ ایک بہت ہی اچھے شاعر ہیں، اور اس انٹرویو میں انہوں نے بڑی اہم بات یہ کہی کہ مشہور ہونا اچھے ہونے سے بہتر شاید کبھی نہیں ہوسکتا، بلکہ شہرت تو کبھی کبھی انسان کی تخلیقی صلاحیت کو شک کے گھیرے میں بھی لے آتی ہے۔یہ گفتگو امید ہے کہ آپ سبھی کو ضرور پسند آئے گی، کیونکہ اس میں انعام ندیم نے بہت سے اہم معاملات پر مختصر مگر اچھے جوابات دیے ہیں۔

تصنیف حیدر:غزل جیسی صنف میں اب تک جو تبدیلیاں آئی ہیں، اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر ، آپ اس سے کتنے مطمئین ہیں، اور آپ کس طرح کی غزل کو فی الواقعی غزل سمجھتے ہیں؟

انعام ندیم: ظفر اقبال صاحب کہا کرتے ہیں کہ 'غزل میں ظاہری طور پر تبدیلی نہیں کی جاسکتی، البتہ اسے اندر سے تبدیل کرنے کے پورے امکانات موجود ہیں' ــــ میں اس بات سے متفق ہوں۔ غزل کا سارا حُسن اس کے ردیف قافیے کی ترتیب اور بحروں کے نظام میں ہے، اگر آپ اسے تبدیل کرتے ہیں تو غزل، غزل نہیں رہتی؛ لیکن اسلوبیاتی اور موضوعاتی سطح پر اس میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور لائی جاتی رہی ہیں۔ خصوصا پچھلی نصف صدی میں ان دونوں حوالوں سے غزل میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، اس نے اس صنف کو بے پناہ تازگی بہم پہنچائی ہے۔ غزل میں اب جو موضوعات بیان ہورہے ہیں وہ سراسر جدید حسیت کی دین ہیں۔ نئے شاعر کا ذہن بھی نیا ہے اور وہ نئی بات سوچتا ہے، لیکن اس سب کے لیے اسے غزل کی کلاسیکی روایت سے پوری طرح آگاہ ہونا چاہیے اس کے علاوہ زبان سے نہ صرف پوری واقفیت ہونی چاہیے بلکہ اس پر دسترس بھی۔ میں اُسی غزل کو فی الواقعی غزل سمھجتا ہوں جو یہ فنی تقاضے پوری کرتی ہے۔

تصنیف حیدر: شاعری میں تربیت کی اہمیت پر آپ کتنا زور دیں گے اور کیوں؟

انعام ندیم: لکھنے کے لیے پڑھنا شرط ہے، اور شعروادب کا مطالعہ ہی شاعر کی اصل تربیت کرتا ہے۔ اگرچہ شاعری آرٹ کے ساتھ ساتھ کرافٹ بھی ہے یعنی اس کے فنی تقاضے بھی ہیں جن کے لیے عروض جاننا ضروری ہے تاہم زمانہء قدیم کی طرح استادوں کی شاگردی اختیار کرنا میں ضروری نہیں سمجھتا ــــ جب آپ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں، اور اگر آپ کی طبع شاعری کے لیے موزوں ہے تو دھیرے دھیرے وزن اور بحر وغیرہ کی سمجھ آجاتی ہے ـــــ میری نظر میں شاعر کی اصل تربیت اس کے مطالعے ہی سے ہوتی ہے۔

تصنیف حیدر: نثری نظم کے تعلق سے آپ کے کیا خیالات ہیں، نثری نظم کے وہ کون سے شاعرہیں جو آپ کو بے حد پسند ہیں؟

انعام ندیم: نثری نظم کو میں شعری اظہار کا اہم وسیلہ سمجھتا ہوں۔ اب یہ بحث ختم ہوجانی چاہیے کہ نثری نظم شاعری کی صنف ہے یا نہیں ــــ خصوصاٍ ذیشان ساحل کی شاعری کے بعد یہ بحث بہت لا یعنی محسوس ہوتی ہے۔ ذیشان نے نثری نظم کے تقریباٍ تمام امکانات کو اپنی شاعری میں برت کر ہمیں دکھا دیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ نثری نظم کا اپنا ایک شاعرانہ نظام ہے جو فکری اور جمالیاتی سطح پر، کسی بھی دوسری شعری صنف سے کسی طرح کم نہیں ــــــ بلکہ ایک اعتبار سے اُسے دوسری اصناف پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ نثری نظم میں کسی بھی موضوع کو شاعری بنایا جاسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں غزل کے شاعروں کو نثری نظم ضرور پڑھنی چاہیے، یہ ہمیں احساس کی ایک نئی پرت سے روشناس کراتی ہے جس سے غزل میں تازگی کا در کھُلتا ہے۔نثری نظم میں ذیشان ساحل اور سعیدالدین میرے بہت پسندیدہ شاعر ہیں۔ مصطفیٰ ارباب اور سید کاشف رضا بھی مجھے پسند ہیں، ان کی نظموں میں جو رومانویت کی لہر کہیں اندر ہی اندر بہتی ہے وہ مجھ ایسے غزل کے شاعر کو بہت مانوس معلوم ہوتی ہے ـــ مجھے نسرین انجم بھٹی کی نظمیں بھی بہت پسند ہیں۔

تصنیف حیدر: فکشن کے تعلق سے آپ کے خیالات کیا ہیں اور آپ کے عہد میں جو فکشن لکھا جارہا ہے، اس سے آپ کتنے واقف اور کتنے مطمئین ہیں؟

انعام ندیم: میں نے جب ادب کا مطالعہ شروع کیا تو اس کی ابتدا فکشن پڑھنے ہی سے کی تھی۔ لڑکپن ہی سے فکشن پڑھنے کی چاٹ ایسی لگی کہ آج بھی میرے مطالعے میں شاعری سے زیادہ ناول اور کہانی رہتی ہے۔ فکشن لکھنے والوں نے مجھے ان دیکھے جہانوں سے آشنا کیا اور زبان کے لطف سے آگاہی دی ــــ مثلاً عصمت چغتائی کو میں نے پہلی بار کوئی تیس برس پہلے پڑھا ہوگا لیکن میں آج تک ان کی تحریر کے جادو سے نہیں نکل سکا، وہ آج بھی میری پسندیدہ فکشن رائٹر ہیں۔ اسی طرح کرشن چندر، منٹو بیدی، قرۃ العین حیدر وغیرہ آج بھی اُسی طرح پسند جیسے اُس وقت تھے جب انھیں پہلی بار پڑھا تھا۔ رہی بات آج کے عہد کی تو صاحب آپ فاروقی صاحب کے ناول 'کئی چاند تھے سر آسماں' ہی کو لے لیجیے اور دیکھیے کہ کیسا بے مثال فکشن لکھا جارہا ہے۔ مرزا اطہر بیگ کے ناول 'غلام باغ' کو لے لیجیے ــــ حیران کردینے والا ناول ہے، یہ سب نیا اردو فکشن ہے ــــــ آج کل میں ایک اور جادوگر کی تحریروں کے سحر میں ہوں جس کا نام علی اکبر ناطق ہے، میں ان دنوں ناطق کا ناول 'نولکھی کوٹھی' پڑھ رہا ہوں ـــ مجھے اُن کے افسانے بھی بہت پسند ہیں۔
میرے ایک اورپسندیدہ فکشن رائٹر سید محمد اشرف ہیں جن کا تعلق ہندوستان سے ہے۔

تصنیف حیدر: اطہر نفیس،ثروت حسین، رئیس فروغ جیسے شاعروں کے اس قدر مشہور نہ ہوپانے کی کیا وجوہات ہیں، کیا یہ شاعر دوسرے اہم شعرا سے کس معاملے میں کم ہیں؟

انعام ندیم: بات یہ ہے تصنیف! مشہور شاعر ہونے سے زیادہ اچھا شاعر ہونا اہم ہے۔ کم از کم میرا تو یہی خیال ہےـــ اگر آپ اچھے شاعر ہیں تو آپ کا ذکر ضرور ہوگا، مثلاً ابھی جن تین شاعروں کے نام آپ نے لیے، اگر یہ عمدہ اور اہم شاعر نہ ہوتے تو آپ ان کا نام کیوں لیتے؟ پھر یہ بھی ہے کہ اردو کے بہت سے ''مشہور" شاعروں کی مقبولیت مشاعروں کی مرہونِ منت ہے یا ان گلوکاروں کی جنھوں نے ان کی غزلوں کو گا کر مقبول کردیا۔ لیکن اپنی تمام تر عوامی مقبولیت کے باوجود سنجیدہ ادبی حلقوں میں ان کا نام اور کام کسی اہم مقام کا حامل نہیں ہوتا ــــ دوسری طرف ایسے بے شمار شاعر ہیں جو شاید اتنے مقبول تو نہیں ہیں لیکن ان کے کام کی اہمیت اتنی ہے کہ اچھی شاعری کا تذ کرہ ان کے ذکر کے بغیر ادھورا رہتا ہے۔

تصنیف حیدر: پاکستان میں غزل کے مستقبل کے تعلق سے آپ کی رائے کیا ہے؟

انعام ندیم: میں سمجھتا ہوں غزل ایسی صنفِ سخن ہے جس کا مستقبل ہمیشہ روشن رہے گا کیونکہ شاعری کی طرف متوجہ ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت غزل ہی کو اظہار کا وسیلہ بناتی ہے۔ یوں غزل کو نئی سوچ اور تازہ افکار کے حامل شاعر کسی بھی دوسری شعری صنف کی نسبت زیادہ میسر آتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ غزل کے ردیف قافیے کے نظام کے سبب، اپنے شعری اظہار میں شاعر اتنا آزاد نہیں ہوتا جتنا نظم میں ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود غزل میں نئے نئے اسلوب اور فکر کے زاویے سامنے آتے رہتے ہیں ــــ نئی غزل جو آج پاکستان میں لکھی جارہی ہے، کم از کم اپنے اسلوب اور اظہار کی سطح پر بہت عمدہ ہے۔ اب شاعروں کی اکثریت اپنے شعر کو تازہ بنانے اور اس میں کوئی نیا زاویہ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے ـــــ صرف ایک چیز ایسی ہے جس میں پاکستان کے اکثر شاعر بہت ٹھوکر کھاتے ہیں اور وہ ہے زبان کا نہ جاننا ـــــ میں اس سے بہت بے مزا ہوتا ہوں۔ کاش ہمارے دوست تھوڑی سی توجہ زبان کی دُرستی کی طرف بھی دے دیا کریں۔

تصنیف حیدر: آپ کی غزل اپنا ایک الگ مزاج رکھتی ہے اور مجھے بہت پسند ہے، اس کے باوجود ناقدین کی گفتگوئوں اور تحریروں میں آپ کا ذکر کم ہے، آپ اس کی کیا وجہ سمجھتے ہیں؟

انعام ندیم: پسندیدگی کے لیے شکریہ، تصنیف! اب میں کیا عرض کروں کہ نقاد میرا ذکر کیوں کم کرتے ہیں۔ مجھے تو یہ یاد ہے کہ شمس الرحمٰن فاروقی جیسے جید نقاد نے مجھ پر تفصیل سے لکھا ہے، اسی طرح سے نئی شاعری کے سرخیل ظفر اقبال نے بار بار مجھ پر لکھا اور جابجا اپنی تحریروں میں میری شاعری کا تذکرہ کیا ہے ــــــ بات یہ ہے کہ کوئی بارہ برس ہوئے میرا شعری مجموعہ 'درِ خواب' شائع ہوا تھا، اُس پر ادھر اُدھر کافی بات ہوئی اور مضامین بھی لکھے گئے، لیکن ادھر کئی برس سے میں نے بہت کم لکھا ہے اور میری بہت کم غزلیں رسائل میں شائع ہوئی ہیں۔ نقاد آپ پر تبھی بات کرتے ہیں جب ان کے سامنے آپ کا نیا کام ہوــــ تو اس سب کی واحد وجہ میری اپنی سستی اور کاہلی ہے- ویسے میں آج کل پھر سے اپنی شاعری کو وقت دے رہا ہوں، جلد ہی آپ کو میری نئی غزلیں پڑھنے کو ملیں گی۔

تصنیف حیدر: جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں، وہ انتشار کا عہد ہے۔ایسے میں ادب سماجی سطح پر کیا واقعی کوئی کردار نبھا سکتاہے؟

انعام ندیم: زندہ ادب وہی ہے کہ جس میں اس کا عہد سانس لیتا اور دھڑکتا ہوا محسوس ہو۔ لیکن ادب کا کام محض خبر دینا نہیں ــــ ادب نہ صرف اپنے عہد بلکہ گزرے ہوئے عہد کی بھی تصویر پیش کرتا ہے اور آنے والے زمانوں کی جھلکیاں دکھاتا ہے۔ ادب ہمیں مختلف تہذیبوں سے روشناس کراتا ہے اور سماج میں ہمارے کردار کو متعین کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔

تصنیف حیدر: آپ اس وقت ہندوستان میں مقیم کون سے شاعروں کو جانتے اور پسند کرتے ہیں؟

انعام ندیم: یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ بہ نسبت شاعروں کے، میں ہندوستانی فکشن رائٹرز سے زیادہ واقف رہا ہوں۔ ظاہر ہے یہ واقفیت ذاتی نوعیت کی نہیں، بلکہ میری مراد ہے ان کے ادب سے واقفیت ــــــ لیکن ادھر پچھلے چند برسوں میں مجھے متعدد ہندوستانی اردو شعراء کے کلام سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ اس کا وسیلہ فیس بک اور دوسری سماجی رابطے کی سائٹس بنیں۔ میں یہ بات زور دے کر کہنا چاھتا ہوں کہ ہندوستان میں نہایت خوبصورت غزل لکھی جارہی ہے۔ اور میرے لیے ہندوستانی اور پاکستانی غزل کو الگ الگ کرنا ممکن نہیں۔ یہ ایک ہی تسلسل ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان سے میں صرف عرفان صدیقی اور شہریار جیسے معروف شعراء کے کلام ہی سے واقف تھا لیکن فیس بک کے ذریعے سے میری رسائی فرحت احساس، عادل رضا منصوری اور عالم خورشید تک ہوئی جن کی اکا دُکا غزلیں میں نے رسائل میں پڑھ رکھی تھیں، اور اب یہ سب میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔ اسی طرح جن نئے ہندوستانی شاعروں سے میں حال ہی میں متعارف ہوا ہوں ان میں زیادہ تعداد نوجوان شعراء کی ہے ــــ مثلاًتصنیف حیدر آپ، ابھیشک شکلا، امیر امام، سالم سلیم، پراگ اگروال وغیرہ ـــــ ابھیشک شکلا کی غزل نے مجھے بہت متاثر کیا، ان سے اور امیرامام سے حال ہی میں کراچی میں یادگار ملاقات ہوئی تھی۔

تصنیف حیدر: اپنے شعری رویے کو اگر آپ خود بیان کریں ، اس کے اسباب و محرکات پر نظرڈالیں تو ہم آپ کے تخلیقی تجربے کے بارے میں بہت سی باتیں جان سکیں گے۔

انعام ندیم: میرا شعری رویہ (جو بھی وہ ہے) میری شاعری سے عیاں ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میرے شعرسے اُس کیفیت کا اظہار ہوسکے جس کے تحت میں نے وہ شعر کہا ہے ــــــ میں نے اپنے طور پر اپنی شاعری کی ایک فضا بنانے کی کوشش کی ہے، لیکن مجھے اعتراف ہے کہ میں اسے زیادہ آگے نہیں بڑھا سکا۔ تاہم بُری بھلی جیسی بھی فضا بنا پایا ہوں، مجھے وہ پسند ہے۔شاعری میں جس چیز پر میں جان دیتا ہوں وہ زبان کا تخلیقی استعمال ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے پسندیدہ شاعروں میں سارے وہ شاعر شامل ہیں جو عمدہ زبان لکھتے ہیں مثلاً احمد مشتاق، آفتاب حسین، اکبر معصوم اور نوجوان شعراء میں سے کاشف حسین غائر اور احمد شہریار۔ ظاہر ہے کہ اس فہرست میں اور بھی کئی نام ہیں۔
شاعری میرے لیے صرف تخلیقی تمانیت ہی کی چیز نہیں بلکہ حصولِ مسرت کا بھی ذریعہ ہے۔ میں شاعری کو بہت طاقتور چیز سمجھتا ہوں، یہ مجھے ٹوٹ کر بکھرنے سے بچاتی ہے اور بعض اوقات بکھرے ہوئے وجود کو پھر سے مجتمع بھی کرتی ہے۔


جمعرات، 29 جنوری، 2015

تصنیف حیدر سے دس سوالات


تصنیف نے اپنے بلاگ پر دس سوالات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ ادھر کئی روز سے ایک کے بعد ایک بہت سی شخصیات نے ان دس سوالوں کا سامنا کیا ، کچھ لوگوں نے ان سوالات کےجوابات تفصیل سے دیئے تو کچھ نے رواروی میں ،کچھ نے جلد از جلد جوابات ارسال کر دیئے تو کچھ نے سوالات پر اچٹتی سے نظر ڈال کر انہیں کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ پھر بھی بہت سی ایسی اہم شخصیات ہیں جنہوں نے ان سوالوں کو پڑھا ان کی اہمیت کو جانا اور ان سوالوں کےتشفی بخش جوابات بہت علمی و فکری انداز میں پیش کئے۔ابھی یہ سلسلہ چل رہا ہے اور بہت سی اہم شخصیات سوالوں کو اپنے سرہانے رکھے ان کےمعقول جوابوں پر غور کر رہی ہیں۔ جیسے جیسے جوابات آتےجاتے ہیں وہ تصنیف کے بلاگ کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ادھر جب کئی لوگوں سے تصنیف نے سوالات کئے تو کچھ کے دل میں ان سے بھی استفسار کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ خیال اتنا نا مناسب بھی نہ تھا کہ جب آپ سنجیدہ لوگوں سے سنجیدہ معاملات پر گفتگو کرنے کے خواہاں ہیں تو آپ سے بھی سنجیدگی سےیہ اصرار کیا جا سکتا ہے کہ اپنے خیالات کا بھی اظہار کیجئے تاکہ آپ کو بھی علم ہو کہ یہ سوالیہ نشان کیا کچھ نہیں کہلوا لیتا۔ تصنیف سے یہ دس سوال تسنیم عابدی نے کئے ہیں۔ جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

تسنیم عابدی: تم جوغزل میں طبع آزمائ کرتے ہو یہ مجبوری ہے عنفوان شباب کی مخموری ہے؟

تصنیف حیدر:شاعری کو ہی آپ بنیادی طور پر میری مجبوری کہہ سکتی ہیں۔ میں اپنی ذات کے اظہار کا اور کوئی راستہ جانتا ہی نہیں، موسیقی میں دلچسپی ہے، رقص کو پسند کرتا ہوں، پینٹنگز اور دوسرے تمام اہم اظہارکے ذرائع اچھے تو لگتے ہیں، مگر ان میں خود کو اتنا کامل نہیں سمجھتا کہ اظہار کرپائوں گا، اور اپنی ذات کا بھونڈا اظہار تو مجھے شاعری میں پسند نہیں تو ان ذرائع کی تو بات ہی اور ہے۔ آپ نے غزل کی شرط لگا دی ہے، ورنہ میں آپ کو بتاتا کہ غزل دراصل میرے اظہار کا مکمل راستہ کبھی نہیں بن سکی ہے اور نہ شاید بن سکے گی، مجھے یہ آزادی نظم میں ملتی ہے، مگر نظم میں اچھی کہہ نہیں پاتا، وہاں خیال کو برتنے، اسے بیان کرنے، اسے مبہم یا آسان طریقے سے قاری تک پہنچانے کے لیے جو سلیقہ درکار ہے، ابھی مجھ میں نہیں، ہوسکتا ہے کہ سو نظمیں کہوں تو پندرہ بیس ٹھیک ٹھاک بھی نکل آئیں، مگر غزل میرے ساتھ بچپن سے رہی ہے، میں نے شاید پانچویں چھٹی جماعت میں ہی کلاسیکی رنگ کی غزل کہنی شروع کردی تھی، مجھے یاد ہے کہ آٹھویں جماعت میں جب میرے ایک استاد نے مجھ سے کہا تھا کہ بھیا!سنا ہے تم شاعری واعری کرتے ہو، کوئی شعر سنائو،تو میں نے پورے اعتماد سے شعر پڑھا
مرا نظیر نہ عالم میں ہوسکا پیدا
مرے لیے ہی لگے نعرہ ہائے صد تحسین
استاد بے چارے اس رنگ پر ایسا بوکھلائے کہ مجھے بٹھادیا، بعد میں کئی بار اس واقعے کو یاد کرکے میں خود بھی محظوظ ہوتا رہا ہوں۔ اب عنفوان شباب کی جہاں تک بات ہے تو بھئی! یہ تو میری زندگی کے ایک خاص دور کے تجربات ہیں نا! اور آپ دیکھیے کہ کتنے سچے ہیں۔ صرف میرے تجربے نہیں، میری عمر کے دوسرے لڑکوں، میرے دوستوں، میرے دشمنوں سبھی کے روزمرہ کے تجربات ہیں۔ہندوستان میں اردو میں لکھنے پڑھنے والے نوجوانوں کی حالت زیادہ خراب ہے، ہم اچھا لکھتے پڑھتے ہیں، اچھی سمجھ رکھتے ہیں، یہ یہاں شاید دوچار لوگوں کے علم میں ہے، بزنس کرنے والے یا یونیورسٹی میں بیٹھے اساتذہ کو بھی اس سے کوئی شغف نہیں، ہمارے لیے اردو میں کوئی خاص راہ نہیں، کوئی کیرئیر نہیں، جھک مار کر ہمیں ایک طویل پڑھائی کے سلسلے سے گزر کر یونیورسٹی کی اسی دنیا میں آنا پڑتا ہے، جس پر ہم ہزار بار تنقید کرتے ہیں۔ مجھ پر دوسرے راستے اس لیے بھی بند رہے کہ مجھے لکھنے پڑھنے کے علاوہ کچھ آتا ہی نہیں، میں تو بینگن تک اچھے نہیں خرید سکتا۔ لیکن میرے یا مجھ جیسے لڑکوں کے پاس بھی تو دل ہوتا ہے، ان کی کچھ جسمانی اور روحانی ضرورتیں ہوتی ہیں۔ ہم تو پھر بھی اظہار کے راستے تلاش کرلیتے ہیں، جو نہیں کرپاتے وہ چور اچکے، بدمعاش، اٹھائی گیرے یا زناکار بن جاتے ہیں، کیونکہ سماج یا مذہب کسی نے بھی انفرادی طور پر کسی انسان کی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کا پس منظر جاننے کی کوشش نہیں کی، ورنہ ہم دیکھتے کہ جو لوگ ہماری زمین پر گمراہ، مجرم یا بیمار ذہنیت کے لوگ کہلاتے ہیں،وہی اگر ایسے کسی ملک میں پیدا ہوجاتے، جہاں انسان کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے توان کی شخصیت ہی کچھ اور ہوتی۔سو عنفوان شباب کے حاشیے پر پڑی ہوئی اس شاعری میں دراصل ایسی چیخیں اور ایسے احتجاج موجود ہیں، اس لیے میں اسے مخموری نہیں سمجھتا۔ زمین پر سونے والے آسمان کی باتیں نہیں سوچ سکتے اور وہ تو بالکل نہیں جن کی پیٹھ سے کھردری زمین چپکی ہوئی ہو۔

تسنیم عابدی:ایک ادیب کو کیا بے پروا ہونا چاہئے؟ اور یہ بے پروائ کیا قاری ،ادب یا تنقید نگار سے ہونی چاہئے یا تینوں سے بے رخی درست ہے؟

تصنیف حیدر:کسی بھی ادیب کا بے پروا ہونا دراصل ایک قسم کا ڈھونگ ہوتا ہے۔اول تو جو ادیب ہے،وہ قاری، ادب یا تنقید نگار تینوں سے بے پروا ہوہی نہیں سکتا۔وہ لوگ جو بے نیازی کے طوق گلے میں ڈالے گھومتے ہیں، دراصل خود کو منافق کے طور پر نمایاں کرتے ہیں، ادب ایسے برے لوگوں کو گلے سے لگاتا ہے، جو بے نیازی کی بیماری سے دور ہوں۔میر بے نیاز ہوتے تو آصف الدولہ کے یہاں نوکری نہ کرتے، غالب بے نیاز ہوتے تو اپنے شاگردوں اور دوستوں سے ہنڈیاں نہ منگواتے پھرتے، منٹو کے بارے میں تو آپ خود بھی جانتی ہیں۔سو بے نیازی اگر سماجی یا معاشرتی سطح پر ہے تو وہ کھوکھلی ہے، اس کا پردہ چاک ہوجاتا ہے، بہت دنوں تک کوئی بھی ایسا آدمی جو خود کو بے نیاز ثابت کرنے پر تلا ہو،یہی اصرار اس کی بے نیازی کی پول کھول دیتا ہے۔قاری سے کوئی کیسے بے نیاز ہوسکتا ہے، اس حد تک ضرور کہ آپ لوگوں کی ٹھڈیوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر یہ نہ پوچھیں کہ بھائی! آپ نے میری فلاں تحریر شاید ابھی تک نہیں پڑھی، یا یہ کہ آپ کو میرا وہ مضمون دیکھنا چاہیے، میں نے اس میں بڑے پتے کی بات لکھی ہے۔دنیا مصروف ہے، ہر آدمی پڑھنے کے لیے اپنی ترجیحات کو خود طے کرتا ہے۔ پڑھنے والا تو سب کچھ پڑھنا چاہتا ہے، مگر سب کچھ پڑھنا ممکن نہیں، کچھ نہ کچھ تو چھوٹنا ہی ہے۔اگر کوئی ادیب قاری سے اس حدتک نیازمندانہ رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے کہ اسے خوشامد کرکرکے اپنی چیزیں پڑھوائے یا اسے سیمنار کا لالچ دے کر خود پر مضمون لکھوانے کے لیے اپنی تخلیق یا تنقید پڑھنے کی طرف راغب کرے تو وہ بے چارہ تخلیقی یا تنقیدی اعتبار سے بے حد مفلس ہوگا۔ادب سے کوئی بھی ادیب بے نیاز نہیں ہوسکتا، البتہ تنقید کے بارے میں ہمارے بہت سے شاعر یا فکشن نگار یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ناقد کو اہمیت نہیں دیتے۔ اول تو ناقد کو اہمیت کون دیتا ہے،ناقد اپنی اہمیت خود تسلیم کرواتا ہے۔

تسنیم عابدی:کیاجدیدیت آج کے قاری کو مائل کرنے یا بیوقوف بنانے کی جدید ادا ہے؟

تصنیف حیدر:جدیدیت کا کوئی فلسفیانہ جواز فراہم کرانا میرے لیے ممکن نہیں، کیونکہ اگر میں ایسا کچھ کروں گا تو وہ سب میرے بزرگوں کا چربہ ہوگا۔البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ جدیدیت جن معنوں میں ہمارے یہاں لی گئی یا اس سے جو کام لیا جانا چاہیے تھا نہیں لیا گیا۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہم نے کسی بھی قسم کے نظریے یا رجحان کو دراصل اس کی جڑوں کے ساتھ قبول نہیں کیا، میں نے فیض پر ایک طویل مضمون اس حوالے سے لکھا تھا، اور یہ بات سمجھنے کی کوشش کی تھی کہ فیض صاحب دراصل 'مجنوں گورکھ پوری' کے دکھائے ہوئے اس امید افزا نظریہ شعر سے کس قدر الگ را ہ پر چلے تھے، جسے لوگوں نے ترقی پسندی تصور کیا ہوا ہے۔مجنوں صاحب نے لکھا تھا،جس کا ذکر شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے مضمون جدیدشعری علائم میں کیا ہے کہ شاعرکا کام دراصل لوگوں میں زندگی کی امید پیدا کرنا ہے، انہیں جینے کے ایک نئے راستے کی طرف لانا ہے، وغیرہ وغیرہ۔جس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے بغیر سوچے سمجھے میر کی مثال پیش کردی تھی، لیکن فیض کی شاعری کا جب میں نے جائزہ لیا تو وہ ابتدا سے آخر تک انسان اور اس کے ارتقا کے تعلق سے خاص طور پر مشرقی سماجوں میں نہایت مایوس کن رویوں کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ تضاد یا یہ کنفیوزن دراصل اس لیے پیدا ہوئی ہے کیونکہ ہمارے نظریات اور رجحانات ادھار کی دین ہیں۔ہم نے جدیدیت کے ساتھ بھی یہی کیا۔آپ غور کیجیے تو جدیدیت جس بنیادی تصور کے ساتھ ہمارے یہاں آئی تھی، اور جس کروفر کے ساتھ ہمارے ادیب مغربی مصنفین کے لسانی تشکیل و تخریب کے معاملات بیان کرتے چلے آئے، کیا ان میں سے باقاعدہ کسی نے زبان کے ادھیڑنے یا بننے میں ہماری مدد کی۔ شاعری کا ارتقا دراصل نثر میں پیدا ہونے والی انقلابی لہر سے عبارت ہے۔وہ شاعری جو کسی مخصوص زبان کی نثر کو نئی قواعد یا ترتیب عطا نہ کرسکے،ویسے ہی مردہ ہے۔ظفر اقبال اس معاملے میں تنہا آدمی ہے، جس نے زبان کے ساتھ کھلواڑ کی نت نئی کوششیں کیں، مگر اسے بھی خارج سے داخلی تجربوں کی جانب آتے آتے، روایت کی بھینٹ کئی دفعہ چڑھنا ہی پڑا ہے، اس کی وجہ ہے کہ ہم اظہار کے نئے لسانیاتی تجربات کو قبول کرنے کے معاملے میں نابالغوں جیسا رویہ رکھے ہوئے ہیں۔میں جدیدیت کو قاری کے مائل کرنے یا بے وقوف بنانے کی کوئی ادانہیں سمجھتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری کسی کو مائل کرنے کے لیے نہیں کی جاتی، نہ ہی کسی کو بے وقوف بنانے کے لیے جاتی ہے، اور جہاں یہ کام ہوتا ہے، یعنی کہ مشاعروں میں، میں اسے موزونیت تو کہوں گا مگر شاعری نہیں کہہ سکتا۔

تسنیم عابدی:تمہاری شاعری میں جو بولڈنس ہے یہ کبھی اوریجنل سے زیادہ آرٹیفیشل لگتی ہے؟اس کی وجہ؟

تصنیف حیدر: آپ نے ولی دکنی سے پہلے کی شاعری کا جتنا بھی حصہ پڑھا ہوگا، اس میں ضرور آپ کو مصنوعی پن، حقیقی سے زیادہ دکھائی دے گا، میں اپنی کوئی تعریف نہیں کررہا، میں جدید شعری اظہارکے تمام ان زاویوں کو جو اب تک سامنے آچکے ہیں، اردو کی چھ سات سو سالہ شعری روایت کا نتیجہ سمجھتا ہوں، اب چونکہ میں ایک نئے سرے سے شروعات کرناچاہتا ہوں، اس لیے یہ ڈائمنشن جو میری شاعری کا راستہ طے کرتا ہے، اس میں داخلیت کی گنجائش بہت کم ہے، میں ابھی زبان کے ٹوٹنے، بکھرنے اور اس کو بڑھانے، وسیع کرنے کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہوں، اس میں خیال سے زیادہ لفظ کی اہمیت ہے، لفظ جو شاعری میں استعمال نہیں ہوا یا وہ لفظ جس کو ہمارے نفیس شعری محلے میں بازارو یا فرنگی اور غیر ملکی سمجھا جاتا ہے۔قواعد اور عروض ان دونوں کی مجھے زیادہ پروا نہیں ہے، کیونکہ اس کا جواز میرے پاس موجود ہے، میں نے ظفر اقبال اور اس کے جیسے کہنے والے اکا دکا شاعروں کو جدیدیت کا حاصل سمجھا ہے، اب یہاں سے جب دوسرے راستے پھوٹیں گے تو کچھ دور تک تو انہی راستوں اور انہیں اسالیب کا سہارا لینا پڑے گا نا، ہوسکتا ہے کہ جب یہ لہجہ اردو والوں کے لیے مانوس ہوجائے تب اس میں انہیں مصنوعی پن کم اور حقیقی پن زیادہ محسوس ہو۔ ابھی تو ان اسالیب کو ہی صحیح طور پر ایکسٹنڈ نہیں کیا گیا ہے ، جس پر ظفر اقبال بھی شاید کچھ مجبوریوں کے سبب، اردو والوں کے مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اپنی بقا کا کچھ روایتی سامان بہم کرنے کے چکر میں ناکام رہے ہیں۔میں جن کچھ جگہوں پر کامیاب ہوجاتا ہوں، وہاں یہ نیا پن جسے آپ بولڈ نیس کہہ رہی ہیں، بہت مصنوعی نظر آتا ہوگا، تو آنے دیجیے،شاید یہ اس آدمی کو نظر نہ آئے جو روایت کو بڑھانے کے ویسے ہی عمل پر یقین رکھتا ہو، جیسا مجھے ہے۔

تسنیم عابدی:میرا جی کا محبوب معاملہ جنس تھا لیکن انہوں نے جنس کو علامت کے طور پر برتا تصنیف حیدر نے جنس کا لیبل لگا لیا ہے کیا اس لئےابھی شاعری نا بالغی کے مراحل میں ہے؟

تصنیف حیدر:اس سوال کا تھوڑا بہت جواب تو میں نے پہلے ہی جواب میں دے دیا ہے، لیکن یہاں چونکہ آپ نے خاص طور پر تصنیف حیدر کی بات کی ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ شاعری کسی لیبل کو برا نہیں سمجھتی۔جنس میرا موضوع ہے، موضوع دو خاص وجوہات کی بنیاد پر ہے، اول تو مجھے جنس سے زیادہ بہتر دنیا میں اور کوئی چیز نہیں لگتی، ایک ہوسناک حد تک میرے اندر ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ میں جہاں، جب، جیسے جنسی عمل کرنا چاہوں،کرسکوں۔اب چونکہ معاشرہ تہذیب کی پڑیا ہاتھوں میں لیے گھوم رہا ہے، لوگ جنسی معاملات پر بات کرنے، اس پر کچھ کہنے سننے سے ہچکچاتے ہیں تو ایسے میں یہ خواہش اور زور پکڑ لیتی ہے۔میں اکثر سوچتا ہوں کہ جنس، کھانے،پہننے، اوڑھنے، ہنسنے اور سونے تک سے بہتر لذت اپنے اندر رکھتی ہے۔کچھ لوگوں کو اچھا کھانے کی خواہش ہوگی، کچھ کو اچھے لباس کی، کچھ کو اچھے بستر کی،تو اگر مجھے کسی اچھے جنسی پارٹنر کی تلاش ہو تو کیا مضائقہ ہے۔لیکن جب مزید غور کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ لذت سب کو چاہیے، لوگ شادیاں کرکے، عورتوں کو خوش رکھے بغیر سالوں سے ان کے ساتھ جبرا سیکس کرتے آرہے ہیں، بچے مدرسوں میں اس ہوسناکی کا شکار ہورہے ہیں، جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ جنسی ہیجان سے تنگ آکر یا تو خودکشی کرتے ہیں یا کوئی بڑا جرم ان سے سرزد ہوجاتا ہے، مگر اس لذت کے حصول پر جو انسان کا بنیادی حق ہے، کوئی سوال قائم کرنا، اس پر کوئی بات کرنا، اس کا کوئی راستہ پیدا کرنا،اس تک چوری چھپے پہنچنا، یہ سب باتیں معیوب ہیں، گناہ ہیں، غلط ہیں اور بعض اوقات سماجی جرم کے زمرے میں آتی ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ جنس کی دنیا تخلیقی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ کبھی ڈسکور ہوسکتی ہے، اس میں ہزاروں طرح کی گنجائشیں ہیں، اس کے ملنے، نہ ملنے، مل سکنے یا نہ مل سکنے کے رجحانات کی وجہ سے سیکڑوں حادثات اور واقعات دنیا میں جنم لیتے ہیں۔دنیا کے کاروبار میں جنس کا حصہ بہت اہم ہے۔ان دو وجوہات کی بنا پر جنس میرا ایک زبردست تخلیقی محرک ہے، میں تو بلیوفلمیں دیکھ کر بھی شعر کہتا ہوں۔اب یہ بالغی ہے یا نابالغی،اس کا فیصلہ تو میری شاعری پڑھنے والا کرتا رہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

تسنیم عابدی:تصنیف حیدر کے بیباک لہجے نے دشمنوں کے ساتھ کیا کچھ دوست بھی بنائے یا یہ خسارے کا ہی سودا رہا؟

تصنیف حیدر:جو لوگ میرے دشمن ہونگے،میں انہیں جانتا تک نہیں،کیونکہ میں لوگوں سے ملتا جلتا بہت کم ہوں، جب نوکری کررہا تھا تو دفتر سے اپنی ایک دوست کے یہاں جاتا تھا، اس سے مل کر گھر واپس آجایا کرتا تھا، اب بھی یہی معمول ہے، بس فرق یہ ہے کہ دن بھر گھر میں پڑھتا ہوں، ٹی وی دیکھتا ہوں، گانے سنتا ہوں یاکوئی کام کرتا ہوں، شام کو چہل قدمی کے باہر نکل آتا ہوں، ایک دوست فاطمہ خان کے گھر جاتاہوں یا تو سالم سلیم اور زمرد مغل سے ملاقات ہوتی ہے، یہ دونوں میرے بہترین دوست ہیں، سالم سے تو میں نے شاعری کے معاملات میں بہت کچھ سیکھا ہے، خاص طور پر جب ہم ریختہ کے دفتر سے گھر آیا کرتے تھے، تو بہت سی باتیں ہوتی تھیں، ان باتوں نے میری شخصیت سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، زمرد کا معاملہ یہ ہے کہ زمرد میں اختلاف کی جرات ہے، وہ ہر بات کو جلدی تسلیم نہیں کرتے، مگر بات کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں اور پھر اپنی کسی بات سے سوچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔معید دہلی میں تھے تو ان سے ملاقات ہوجاتی تھی،اب وہ علی گڑھ میں ہیں تو ہفتے میں ایک آدھ بار ان سے کال کرکے بتیاتا ہوں،اسی طرح جن دوستوں سے اکثر باتیں ہوتی ہیں، ان میں راغب اختر، غالب ایاز،مہیندر ثانی، پراگ اگروال وغیرہ بہت اہم دوست ہیں۔گھر میں اتفاق واختلاف کرنے کے لیے تالیف حیدر جیسا پڑھا لکھا بھائی موجود ہے، وہ مجھ سے زیادہ پڑھتا ہے، اسے تصوف اور دینیات کا بڑا علم ہے، میں اس سے بہت سی باتیں سیکھتا ہوں، معلوم کرتا ہوں اور بعض اوقات دوسروں کے سامنے بیان کرکے شیخی بگھارتا ہوں۔خوش قسمتی سے گھر کا ماحول اچھا ہے، ہماری والدہ اور والد دونوں ہی پڑھنے، لکھنے یا بحث ومباحثے سے تنگ نہیں آتےبلکہ اس میں خود بھی شریک ہوتے ہیں، چھوٹا بھائی تعظیم ابھی سے ٹالسٹائی اور دوستوفیسکی کو پڑھنے لگا ہے تو وہ بھی ان مباحث میں شریک ہوتا رہتا ہے۔تو گھر سے باہر تک سب میرے دوست ہی ہیں،دشمن کوئی نہیں۔میں تو جس طرح کے شعر بھی کہوں، آج بھی سب سے پہلے اپنے والدین اور بھائیوں کو سنادیتا ہوں، اچھی بات یہ ہے کہ وہ میری تخلیقیت پر بات کرتے ہیں، رواج، محلے داری، تہذیب یا مذہب پر نہیں۔حالانکہ ایک میرے سوا سب بہت مذہبی اور تہذیب یافتہ لوگ ہیں۔

تسنیم عابدی:قمر جمیل وغیرہ نے جو نثری نظم کی تحریک شروع کی اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

تصنیف حیدر:نثری نظم کی تحریک کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتا ہوں میں۔البتہ کہہ سکتا ہوں کہ افضال سید، عذرا عباس، تنویر انجم،انورسن رائے اور ان کے بعد سید کاشف رضا،زاہد امروز کی جو نثری نظمیں میں نے پڑھی ہیں۔انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے، اور بھی نام ہونگے، جو ابھی ذہن میں نہیں آرہے، مگر میں تو نثری نظم کو اظہار کا ایک بڑا ذریعہ مانتا ہوں، بلکہ میرا ماننا ہے کہ موزونیت یا بحر یا وزن جیسی قیود سے شاعری کو آزاد کرکے اس میں اہم تخلیقی تجربات کی گنجائش پید اکرنا ایک اہم کام ہے اور ضرورت بھی۔جسے ہم بڑی شاعری اب تک سمجھتے رہے ہیں یاد رہے کہ آنے والی ایک دونسلوں میں اس کا معیار بھی بدلنے والا ہے، بڑی شاعری،تو خیر دور کی بات شاعری کیا ہے، اس سوال پر بھی نئے سائنسی تجربات اور نئی لسانی تھیوریز کا اثر گہرا پڑسکتا ہے، ایسے میں جب دنیا سمٹ کر ایک مٹھی میں آگئی ہو، اس کو وسیع کرنے، اس میں خیال اور زبان کے نئے امکانات پیدا کرنے کے لیے ایک ایسی ہی صنف زیادہ موثر ہوسکتی ہے جو تمام طرح کی قید سے آزاد ہو اور جس میں علم کو جذب کرلینے کی صلاحیت بھی دوسری اصناف کے مقابلے زیادہ ہو۔

تسنیم عابدی:ایک شاعر یا ادیب کا تنقید نگار سے کیا تعلق ہونا چاہئے؟؟

تصنیف حیدر:شاعر یا ادیب کا تنقید نگار سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوسکتا، ہونا بھی نہیں چاہیے۔اگر آپ لکھنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں یہ سوچنے لگیں کہ اس پر کس قسم کی تنقیدات کی جائیں گی یا کی جانی چاہییں تو لامحالہ تخلیقی صلاحیت پر اثر پڑے گا،مشفق خواجہ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمارے یہاں چیزیں لکھی ہی اس نیت سے جاتی ہیں کہ ان کا ترجمہ بہ آسانی ہوسکے، اس لیے اکثر اوریجنل تحریروں پر بھی ترجمے کا گمان ہوتا ہے۔تخلیق کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔البتہ تنقیدنگار کا تخلیق کار کے ساتھ رشتہ گہرا ہوتا ہے، بعض اوقات تخلیق کو سمجھنے کے لیے شاعر یا ادیب کے ذہن، اس کے ماحول، اس کی گفتگو ان سب کا نفسیاتی اور فلسفیانہ جائزہ لینا تنقید نگار کی ضرورت بن جاتا ہے۔'شاعر کا تعلق کیا ہونا چاہیے' کے جواب میں تو میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میری دانست میں اس طرح کا ساتھ پروفیسروں یا مشاعرے بازوں کا تنقید نگار کے ساتھ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار وارث علوی، شمس الرحمٰن فاروقی یا دوسرے بڑے تنقید نگار ان پر کچھ مضامین لکھ دیتے ہیں۔سنجیدہ ادب میں اس قسم کے مضامین کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے، مگر تنقید نگار کا جواب یہی ہوتا ہے کہ بھئی تعلق داری بھی توکوئی چیز ہے۔اور یہ واقعی ہے، ہم جس جگہ رہتے ہیں، وہاں ہمارے کچھ دوست بھی ہوتے ہیں، اب یہ دوست بگڑے ہوئے شاعریا ادیب بھی تو ہوسکتے ہیں، تو ایک آدھ مضمون اگر اس دوستی کی نذر کردیا جاتا ہے تو اسے کوئی بڑا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔کم از کم میں تو اب اسی نتیجے پر پہنچا ہوں۔ان مضامین سے نہ تو تنقید نگار کا قد چھوٹا ہوتا ہے، نہ کسی شاعرو ادیب کا قامت بلند ہوجاتا ہے۔کسی بھی خراب شاعر یا ادیب میں اتنی سمجھ ہی نہیں ہوتی کہ وہ اس پر بھی کبھی غور کرسکے کہ فلاں نقاد نے اس کی شاعری یا کسی دوسری چیز پر آخر لکھا کیا ہے، وہ بس نام اور سطروں کو چومتا اور آنکھوں سے لگاتا رہتا ہے۔ہاں لیکن اس طرح کی تنقیدات سے بچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ زیادہ لوگوں پر لکھ دینے سے یہی معاملہ تنقید نگار کی اپنی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگا سکتا ہے۔جہاں تک بات رہی کسی حقیقی شاعر یا ادیب کی تو اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا نقاد اس کے بارے میں کیا لکھ رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے، وہ بس اپنے کام سے کام رکھتا ہے، مگر یہ بے نیازی اس حد تک کبھی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی تخلیق کے بارے میں لکھی ہوئی کسی چیز کو سرے سے پڑھنا ہی نہ چاہے کیونکہ تنقید اچھا لکھنے والوں کی تخلیقی تربیت میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے ۔

تسنیم عابدی:کیا مذہب کا رومانوی تصور معاشرے کو نقصان پہنچا رہا ہے یا سراسر تصور مذہب ہی نقصان کا سبب ہے

تصنیف حیدر:مذہب اور معاشرہ !یقین جانیے میں نے ان دونوں باتوں پر ہمیشہ بہت غور کیا ہے۔مذہب کے ساتھ چھوٹا سا مسئلہ ہے، وہ اپنی اصل شکل تبدیل نہیں کرنا چاہتا، اس کی قدامت، اس کا قانون اتنے سخت ہوتے ہیں کہ وہ انہیں آفاق گیر قسم کی کوئی شے تصور کرتا ہے، جبکہ معاشرہ اس کے برعکس مذہب کو اس کے اصل روحانی تصور کے ساتھ کبھی قبول نہیں کرپاتا۔کیونکہ مذہب آدمی کی علمی طور پر بہت زیادہ تربیت کرنے کے حق میں نہیں ہے۔علم سے انسان کے ذہن میں سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ ارتقا کے ہر دوسرے پنے پر مذہب کی بگڑی ہوئی شکل دیکھ کر اس کے بارے میں سوال قائم کرتا ہے، مگر یہ بات مذہب کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔معاشرے میں جو لوگ مذہب کے نام پر نئی رسومیات، نئی بدعتیں قائم کرتے ہیں، ان سے بچنے کا مذہب کے پاس کوئی راستہ نہیں،اجتماعی طور پر تو مذہب نے ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے، جنگیں، مار دھاڑ، قتل و غارت گری-آخر ایسی چیز جو انسان کو کسی خاص اعتقاد کے نام پر دوسرے انسان سے الگ کرتی ہو، وہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے۔مذہب دراصل لوگوں میں اپنے تئیں ایک خاص قسم کی جذباتیت پیدا کرواتا ہے، اور یہ اتنی خطرناک چیز ہے کہ اگر کوئی آدمی براہ راست مذہب پر دنیا کے کسی بھی خطے میں سوال اٹھائے تو لوگ اس کی جان و مال کے درپے ہوجاتے ہیں۔ہمارے ملکوں میں تو یہ معاملہ زیادہ تشویش کن ہے۔مجھے مذہب کی ان باتوں نے ہمیشہ پریشان کیا ہے۔آپ کسی بھی مذہب کو اٹھا کر دیکھ لیجیے، اس کی تاریخ میں اگر کوئی بہت بڑی اخلاقی تبدیلی اگر رونما ہوئی ہوگی تو صرف وقت کی ایک بڑی مجبوری کی وجہ سے، ورنہ مذہب دل سے اسے قبول کرنے پر کبھی تیار نہیں ہوسکتا کہ اس کے قانون اور اس کی آسمانی حیثیت کو کسی بھی طرح کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔میں اسی لیے مذہب کا مخالف ہوں،میں نے ایک ایسے خاندان میں پرورش پائی ہے، جس کا مذہب کے ساتھ رشتہ گہرا رہا ہے، اس لیے میں نے مذہب کی جتنی منافقتیں دیکھی ہیں، وہ عام طور پر لوگوں کے سامنے نہیں آپاتیں، اب یہی بات ایسی ہے کہ میرے کئی دوستوں کے سامنے جب میں کہتا ہوں تو وہ سنتے نہیں، اس پر بات نہیں کرتے، بس برا مان جاتے ہیں۔تو آپ خود ہی طے کیجیے کہ مذہب کا رومانی تصور معاشرے کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ؟

تسنیم عابدی:کائنات کی کون سی چیز نے تصنیف حیدر کو حیرت میں مبتلا کیا؟؟

تصنیف حیدر: ویسے تو کائنات کی شاید کوئی ہی ایسی چیز ہوگی ، جس نے مجھے حیرت میں نہیں ڈالا،خواہ وہ مصنوعی ہو یا قدرتی۔گلہری کی پھرتی، چوہوں کا ٹھنڈے پائپوں میں گشت لگاتے پھرنا، بلی کی اچھل کود اور خرگوش کے کان بھی میرے لیے بہت حیرت کا باعث رہے ہیں۔لیکن سب سے زیادہ اصل میں مجھے جس چیز نے حیرت میں ڈالا وہ میری ماں کا استقلال اور ان کا حوصلہ افزا رویہ ہے۔یہ کوئی تعریفی بات نہیں، میری والدہ نے یوپی میں لکھنئو، روضہ اور دوسری کئی جگہوں پر بچپن گزارا۔جوانی میں شاید اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی ہوگئی، میں نے اپنے عمر کے قریب بیس سال با شعور پر انہیں دیکھا ہے، ان کے زندگی کرنے کے طریقے، ان کی دعائیں اور خدا سے ان کے بے لوث رشتے نے مجھے حیرت میں ڈالا ہوا ہے۔آپ غور کریں تو میرے خاندان نے جن پریشانیوں کے عالم میں زندگی بسر کی ہے، اس میں میری والدہ کا کردار آپ کسی طلسماتی عورت سے کم نہیں لگے گا۔اپنی زندگی کی بدترین پریشانیوں سے گزرنے کے باوجود کبھی ان کے چہرے پر روڑھا پن نہیں آیا، جو بھی انہیں دیکھتا ہے، ان کے چہرے کی نورانیت سے متاثر ہوتا ہے، وہ تہجد گزار ہیں، بعض دفعہ میں ان سے جھلا کر جب پوچھتا ہوں کہ آخر اتنی دعائوں، اتنی نمازوں سے آپ کو ملا کیا ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ 'دل کا سکون'۔اور واقعی وہ عمر کے جس موڑ پر ہیں، وہاں کسی مادی یا معاشی ترقی کے لیے اگر یہ سب عبادتیں ہوتیں تو انسان بہت بری طرح ٹوٹ چکا ہوتا۔میری تعلیم، میرے بھائی بہنوں کی تعلیم، روزگار، فکریات اور ترقی میں صرف اور صرف ان کا ہاتھ ہے۔انہوں نے جس جتن سے، جس محنت سے، جیسی قربانیاں دے کر ہمارے ذہنوں کو سوچنے کے لائق بنایا، ہمیں پڑھایا لکھایا، وہ واقعی انتشار کے ماحول میں بے حد مشکل کام تھا۔میں اپنی زندگی میں اگر کسی شخصیت سے بہت زیادہ متاثر ہوں تو وہ ان کی شخصیت ہے۔وہ زندگی کو ایک پازیٹو روپ میں ہمیشہ دیکھتی رہی ہیں، انہوں نے ہماری ناکامیوں پر ہمیں ایک بہت زبردست کائونسلر کی طرح سمجھایا ہے، ہمت بندھائی ہے۔میں جب اپنے آس پاس نظر دوڑاتا ہوں، ارد گرد لڑکیوں اور عورتو ں کو دیکھتا ہوں تو ایسی سلجھی ہوئی شخصیت مجھے اور کہیں نظر نہیں آتی، جس کے اندر برداشت کا مادہ بھی ہو، سوچنے سمجھنے کی عمدہ صلاحیتیں بھی ہوں، خدا سے ایک بے لوث تعلق بھی ہواور سب سے بڑھ کر وقت کو سمجھنے اور اس کے حساب سے خود کو اور اپنے بچوں کو ڈھال لینے کی طاقت بھی ہو۔سو، میرے لیے تو گوشت پوست کی جیتی جاگتی، چلتی پھری میری ماں،خدا کی سب سے حیران کن تخلیق ہے۔

منگل، 27 جنوری، 2015

اہم ادبی کتابیں ڈائونلوڈ کیجیے



 
لیجے انٹرنیٹ پر موجود اہم ادبی کتابوں کی دوسری فہرست پیش خدمت ہے۔ان کتابوں میں آغا حشر کاشمیری کی کلیات کی جلدیں ، مصحفی کی کلیات کی جلدیں، ذکر میر،  کلیات رشید احمد صدیقی کی جلدیں اور دوسری بہت سی اہم کتابیں شامل ہیں۔ امید ہے کہ ان کتابوں کو آپ بہ آسانی ڈائونلوڈ کرسکیں گے۔ پھر بھی کوئی دشواری پیش آئے تو مجھ سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے بہت سی اہم کتابوں کو انٹرنیٹ پر فراہم کرایا ہے۔ اب جلد ہی آپ کو ادبی دنیا بلاگ کی پیشکش کے طور پر ایک پورا بلاگ غالب اور میر کی غزلوں، قصائد، مثنویات اوررباعیات پر مشتمل نظر آئے گا۔ جس کے ذریعے یونی کوڈ میں یہ چیزیں آپ تک پہنچ جائیں گی اور آپ بغیر کسی دشواری کے انہیں کاپی کرسکیں گے، ان کے پرنٹ آوٹ لے سکیں گے۔اسی طرح ہم شاعروں، ادیبوں کی چھوٹی چھوٹی ویب سائٹ تیار کرنے میں لگے ہیں۔یہ کام امید ہے کہ انٹرنیٹ پر ادب اور زبان کو فروغ دینے میں کچھ حد تک ضرور کامیاب ہوگا۔














   


















































رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *