موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ اس خوفزدہ شخص کی کہانی ہے جس کے من میں اس خیال کا ناگ پھن پھیلا کر بیٹھ گیا تھا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔۔۔ یہ وہ کہانی ہے جو مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ موت سے خوفزدہ اس کردار کی بے چارگی دکھ بن کر میرے اندر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔
’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘،’’ بارش کی باتوں میں بھیگتیلڑکی‘‘ ،’’ گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ اور’’ خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر‘‘ مظہر الاسلام کی ایسی ہی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ان کہانیوں میں موت، اِنتظار، دکھ اور جدائی جیسے موضوعات اپنی ترکیب کے نئے پن کی مہک دیتے جملوں میں یوں جگہ پاتے ہیں کہ ہر جملہ لطف دے جاتا ہے۔ ان افسانوی جملوں کی ندرت میں اتنی چمک ہوتی ہے کہ کہانی میں کسی بڑی اکائی کی تلاش کی خواہش کا سایہ بس ایک لمحے کو لہرا کر ذہن کے کونوں کھدروں میں کہیں گم ہو جاتا ہے۔
یوں نہیں ہے کہ مظہر کی کہانیوں میں کوئی واقعہ، خیال یا احساس ایک مکمل دائرہ نہیں بناتا۔۔۔ بہت سی کہانیوں میں یہ دائرہ بنتا بھی ہے اور کہیں کہیں تو وہ پرکار کا نوکیلا سرا سختی سے جما کر یوں گہری لکیر کھینچتا ہے کہ یہی لکیر کسی نوخیز لڑکی کی آنکھوں میں آنسوؤں سے پھیلنے والے کاجل کی طرح بھلی لگتی ہے۔ تاہم کہانی کے انجام کو آغاز سے جوڑ کر گھومتا دائرہ بنانا مظہر کا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ اسے تو جملہ لکھنا ہوتا ہے، شاندار افسانوی جملہ۔۔۔ چھوئی موئی کی طرح خود میں سمٹا ہوا اور بند کنواری کلی کی طرح نوخیز۔۔۔ جب تک مظہر افسانے تسلسل اور توانائی سے لکھتا رہا ایسے ہی جملوں میں اس کی پوری شخصیت خوشبو کی طرح بس جاتی تھی۔
’’موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ مظہر کے تیسرے مجموعے کی پہلی کہانی ہے۔ اس خوبصورت کہانی میں موت کی طرف کھلتی کھڑکی سے باہر جھانکتے شخص کے عقب میں کرسی پر بیٹھا ایک اور کردار بھی ہے جس کی طرف قاری کا فوری دھیان نہیں جاتا۔ یہ کردار موت سے خوفزدہ شخص کے خوف کی راکھ کرید رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی شخصیت کے چہرے سے پردہ بھی کھسکا رہا ہوتا ہے۔
جب اسرار بھری شخصیت کو اپنے تفتیشی جملوں سے ظاہر کرنے والا کردار موت سے خوفزدہ شخص سے استفسار کرتا ہے۔۔۔ آخر اسے کیوں قتل کر دیا جائے گا؟۔۔۔ تو موت کی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کا یہ جواب ہوتا ہے۔
’’وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگوں کو میرا وجود ناگوار گزرتا ہے۔ بعض حلقوں میں ، میں انا پرست اور خوددار بھی مشہور ہوں۔ کچھ احباب ابھی تک مجھ سے سمجھوتہ نہیں کر پائے۔ بہت سے ایسے ہیں جو میری تنقید سننا پسند نہیں کرتے۔ ایک دوایسے بھی ہیں جن سے میری وفاداری ان کے دوستوں اور دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بہت سے لوگوں کو میری باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں انہیں ملنے نہیں جاتا۔۔۔ اور پھر ’’وہ‘‘ بھی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، وجوہات کا کیا ہے؟۔۔۔‘‘
کرید کرید کر پوچھنے والے شخص کے سوال کرنے کا ڈھنگ، سگریٹ سلگانے اور یکے بعد دیگرے کش لینے کی عادت، مخصوص مسکراہٹ، جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھنا اور آخر کار جیب سے پستول نکال کر میز پر رکھنے اور قتل کا ارادہ ملتوی کر کے باہر نکل جانے کے انداز سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ کہانی کہنے والا اپنی کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے پوست میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے تو یہی وہ کردار ہے جس میں خود افسانہ نگار چھپا بیٹھا ہے۔
مگر ایک مدت گزرنے کے بعد ابھی ابھی کہ جب میں مظہر کا پہلا ناول پڑھ کر اٹھا ہوں مجھے اپنے تب کے خیال کی مجہولیت کی بابت سوچ کر شدید ہنسی کا دورہ پڑا ہے۔ اتنا شدید دورہ کہ میری آنکھیں اس کہانی کی لڑکی کے ان شفاف آنسوؤں سے بھر گئی ہیں جو موت کی طرف کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کے لیے اس کی آنکھوں سے اُمنڈ پڑے تھے۔
مظہرالاسلام کی کہانیوں نے اردو ادب اور میرے دل میں ایک جیسا مقام بنایا ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ خدشہ بھی پریشان کرتا رہا ہے کہ اپنے تخلیقی تجربے کے لیے اسلوب کا جو احاطہ مظہر نے چنا ہے اس پر وہ خود تو بڑی سہولت اور مہارت کے ساتھ ہوادار، روشن اور خوشنما محل بنا سکتا ہے ‘کسی بھی دوسرے شخص کے لیے اس اسلوب کے احاطے میں پوری طرح سمانے اور مکمل سانسوں کے ساتھ ٹھہرنے کی انتہائی کم گنجائش ہے۔ بہت پہلے جب یہ سنا تھا کہ مظہر ناول لکھ رہا ہے اور یہ کہ اس کا عنوان ’’تابوت‘‘ ہو گا تو تب ہی سے مجھے اس ناول کا انتظار سا ہو چلا تھا۔ پھر خبر آئی کہ ناول کا نام بدل کر ’’محبت‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ بعد کا عرصہ مظہر کی تخلیقی جلا وطنی کا عرصہ ہے۔ اس دوران اس کی روشن اور اجلی تصویر پر بہت سی دھول تہہ در تہہ جمتی چلی گئی۔ اس سارے عرصے میں مجھے اس کے ناول کا مزید شدت سے انتظار رہنے لگا کہ نہ جانے مجھے کیوں یقین سا ہو چلا تھا کہ جونہی اس کا ناول منظر عام پر آئے گا ساری دھول آپ ہی آپ جھڑ جائے گی۔
وہ ناول جسے ’’محبت‘‘ یا ’’تابوت‘‘ کے نام سے آنا تھا، ایک چونکا دینے والے نام اور ایک بڑے دعوے کی صورت مکمل طباعتی جمال کے ساتھ سامنے آیا تو میں نے اپنے اندر اس کے مطالعے کے اشتیاق کو فزوں تر پایا۔ ’’محبت، مردہ پھولوں کی سمفنی‘‘ کہ جسے مصنف نے بقلم خود ’’دنیا سے ختم ہوتی ہوئی محبت کو بچانے کے لیے لکھا گیا ناول‘‘ قرار دیا ہے، ابھی ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہوں اور میری آنکھوں سے وہ شفاف اور سچے آنسو چھلک پڑے ہیں جو اس تحریر کے آغاز میں حوالہ بن کر آنے والی کہانی میں موجود اس لڑکی کی آنکھوں میں بھیگ بن کر اترے تھے جو موت سے خوفزدہ شخص سے محبت کرتی تھی۔
ناول کا ابتدائیہ وہ مکالمہ ہے جو ’’کہنے لگی‘‘ اور ’’میں نے کہا‘‘ کے بیچ بڑے بڑے دعووں سے عبارت پاتا ہے۔ اس مکالمے میں مظہر نے اپنے ناول کو محبت کا عجائب گھر، سایوں اور خوابوں میں لپٹے نادر نمونوں کا سانس لیتا میوزیم اور بیسویں صدی کی آخری دہائی کا تاج محل قرار دیا ہے۔ اس میں اس رکاوٹ کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے جو ناول کی تکمیل میں تاخیر کا باعث تھی۔ مظہر نے اس رکاوٹ کو شدید تنہائی کے منہ زور تھپڑوں کا نام دیا ہے۔ تاہم یہیں وضاحت بھی کی ہے کہ اس کے باعث اس کے اندر کاادیب لمبی تان کر سو گیا تھا، کہانی اس سے روٹھ گئی تھی اور اس کی اجلی تصویر پر دھول جمنے لگی تھی۔
ناول کے ابتدائیے میں جب ناول نگار ہر سچے دل کو محبت کا چرواہا اور اپنی ذات کو ایک ادیب، مصور، موسیقار، مجسمہ ساز اور کیمیا گر کا مجموعہ قرار دیتا ہے تو دھیان فوراً پائلو کوئلہوکے ناول ’’الکیمسٹ‘‘ کی طرف جاتا ہے۔۔۔ الکیمسٹ میں بھی ایک چرواہا اور ایک کیمیا دان ہے۔ جن کا تذکرہ ناول کو اسقدر شاندار بنا دیتا ہے کہ اس جانب خیال جاتے ہی میرے اندر مظہر کے زیر نظر ناول کے لیے بھی بے پناہ تجسس بھر جاتا ہے اور میں کامل یکسوئی اور توجہ سے اسے پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔
امرتا پریتم اور ظفر عظیم کے نام منسوب اور اس ناول کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ’’پھولوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ دوسرا ’’پتوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ جبکہ آخری حصہ ’’محبت کے سایوں کی سمفنی‘‘ ہے۔ یوں ناول کے نام اور ان تینوں حصص کے عنوانات میں سمفنی کے لفظ کا استعمال مجبور کرتا ہے کہ اسے علامت کی سطح پر سوچا جائے اور ناول کے متن میں اس کی تعبیر تلاش کی جائے۔ اسی خیال کے باعث میں نے گمان کیا تھا کہ پورا ناول ایک آرکسٹرا کی صورت ہو گا جس میں مفہوم اور احساس کی رو ایک نغمے کا سا آہنگ لیے ہو گی اور یہ کہ اس ناول کے تینوں حصوں میں سوناتا کی طرح بظاہر مختلف لیکن باہم متصل، مسلسل اور ہم آمیز چلتوں سے کام لیا گیا ہوگا۔ مگرحیف کہ ایسا نہ ہوا۔ ہوا یوں کہ ناول کے ابتدائیے میں سمفنی کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ناول مکمل طور پر پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے یہ نام طباعت کے عرصے میں دیا گیا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنی کہانیوں میں علامت کو خوبصورتی سے برتنے والے مظہر کا دھیان سمفنی کو بطور علامت برتنے کی طرف کیو ں نہ گیا؟
چودہ ضمنی حصوں پر مشتمل ’’پھولوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ سے موسوم پہلا اور طویل باب کہانی کے اس خارجی آہنگ اور جملوں کی ویسی ساخت پر مشتمل ہے جسے مظہر کی شناخت کہا جاتا ہے ۔ تاہم کہانی کا معنوی نظام بہت کٹا پھٹا اور غیر مربوط ہے۔ کہانی پھولوں کے اس پر اسرار طوفان کے منظر نامے سے شروع ہوتی ہے جس نے پورے شہر میں تباہی مچادی تھی۔ بے محبت موسم میں، محبت سے منسوب پھولوں کے اس طوفان میں لازوال انسانی جذبوں کا سارا ریکارڈ بھیگ گیا تھا۔ سب کے دلوں پر جدائی طاری تھی۔ باہر پھولوں کی ناقابل برداشت بوچھاڑ تھی اور موت کی خماری میں مسحور اس ناول کا مرکزی کردار سلطان آدم اپنے فلیٹ کے کمرے میں خود کشی کے ذریعے محبت کو بچانے کا شغل فرما رہا تھا۔
ناول کا پہلا حصہ خود کشی کے اس دلچسپ بیان سے شروع ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش کو اپنے اندر سمیٹ لینے والے تابوت کے اس کے اپنے گاؤں کی سمت روانہ ہونے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے ناول کا یہی وہ حصہ ہے جس کی تکمیل پر ناول کا نام ’’تابوت‘‘ تجویز ہوا تھا۔
سلطان آدم کی اس کہانی میں بے انتہا خوبصورت، خالص، سچی اور سنہری چھتیس سالہ اس نفیسہ کا بھی ذکر آتا ہے جو بڑی دلجمعی اور توجہ سے اپنے شوہر اور اپنی جنسی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے تاہم جب سلطان آدم سے ملتی ہے تو ایک مختلف عورت بن جاتی ہے۔ پہلی ملاقات میں جب اسے پتہ چلتا ہے کہ سلطان آدم محبت کی نشانیاں جمع کرتا ہے، دنیا سے محبت بچانے کی کوشش میں مصروف ہے اور بے وفائی کو پھیلنے سے روکنے کا عزم لیے ہوئے ہے تو اسے سلطان آدم کی باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔
ناول نگار نے اپنے اس ناول میں جا بجا جسم کے گرد گھومنے والی محبت کی چیختے چنگھاڑتے جملوں میں مذمت کی ہے۔ نمونے کے لیے صرف دو جملے:
* ’’محبت کا جنسی کشش اور دولت سے کوئی تعلق نہیں‘‘
* ’’کچھ مرد طوائف کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے عورت بنا دیتے ہیں اور کچھ عورت کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے طوائف بنا دیتے
ہیں۔۔۔‘‘
اسی حصے میں وہ محبت کے حوالے سے یہ خوبصورت جملے بھی دیتا ہے:
* ’’محبت کی کہانی دراصل سیلاب کی کہانی ہے جس میں آپ کی انا
ڈوب جاتی ہے‘‘
* ’’کسی ایک بھی میلے لفظ، جملے، کج ادائی یا دل کی کسی غافل دھڑکن
سے محبت کے سیب کو کیڑا لگ جاتا ہے۔‘‘
صاحب یہ بات کتنی عجیب اور تکلیف دہ ہے کہ محبت کے حوالے سے اتنے خوبصورت جملے تخلیق کرنے والا اور جسم کے گرد گھومتی محبت کی مذمت کرنے والا خود اپنی کہانی کی محبت کو جسم سے اوپر اٹھا ہی نہیں پایا۔ مصنف کے ہاں جسم سے اوپر اٹھنے والی محبت کے کسی واضح تصور کی عدم موجودگی کے باعث لازوال محبت کی نشانیاں جمع کرنے والا سلطان آدم نفیسہ کو بے محبت لوگو ں سے متعارف کرانے کے دوران یہ اصرار کرتا ہوا ملتا ہے کہ:
’’یک طرفہ محبت کوئی محبت نہیں ہوتی‘‘
بے محبت لوگوں کی کہانیوں میں خضر لائبریرین کے قتل کی دلدوز خبر افسردگی بن کر برآمد ہوتی ہے۔ ناول نگار بتاتا ہے کہ قاتل لائبریرین کی بیوی شیریں کا چھوٹا بھائی تھا جو اسے چھوڑ کر ایک مالدار شخص کے پاس چلی گئی تھی۔ اس دلچسپ ضمنی کہانی میں ناول نگار لائبریرین کا یہ کارنامہ درج کرنا ضروری خیال کرتا ہے کہ وہ معاشرے کی کڑی روایات سے بغاوت کرنے والے نوجوان جوڑوں کو محبت کے نام پر اپنے گھر میں پناہ دیا کرتا تھا اور یہ بھی کہ جب شہر کی فٹ بال گراؤنڈ میں شراب پینے اور لڑکی کے ساتھ تنہائی میں گھومنے کے جرم میں انہیں کوڑے مارے جارہے تھے تو عین اس وقت خضر لائبریرین نے ایک نوجوان جوڑے کی محبت بچانے کے لیے انہیں گھر میں پناہ دی تھی۔۔۔ اتنا ’’شاندار‘‘ ریکارڈ رکھنے والے لائبریرین کی بیوی اسے محض اس لیے چھوڑ گئی تھی کہ اس کے جنسی ولولے اور جوش میں کمی آ چکی تھی۔
اپنے فلسفہ محبت کو جنس کے شیرے پر مکھی بنا کر بٹھانے کے بعد ناول نگار جانوروں اور پرندوں کو حنوط کرنے والے اس شخص کا قصہ چھیڑ دیتا ہے جس نے ایسے شکاری کی دوسری بیوی سے شادی کر لی تھی جو صرف پرندوں کا شکار کھیلتا تھا مگر پرندوں اور جانوروں کو حنوط کرنے والا شیر کا شکار کرنے کا دعویٰ کرتا تھا۔ بعد ازاں جب یہ کھلا کہ وہ جھوٹ بولتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
نفیسہ اور سلطان آدم کہانی میں ایک مرتبہ پھر ملتے ہیں۔ یہ دونوں کے درمیان آخری ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں نفیسہ اپنا ایک خواب سناتی ہے جس میں کتابوں میں پڑی نظر انداز شدہ تتلیاں زندہ ہو گئی تھیں۔ سلطان آدم ان تتلیوں کو نیک لوگوں کی روحیں قرار دیتا ہے اور یہ پیغام اخذ کرتا ہے کہ:
’’یہ موت کا موسم ہے۔ بہار کے سارے رنگ خودکشی کے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘
پھر سارا زور اس بات پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ خود کشی کا اپنا رنگ ہی نہیں مہک بھی ہوتی ہے اس کی اپنی ایک موج ہوتی ہے اس میں ترنگ اور گرمجوشی ہوتی ہے اور یہ کہ خود کشی اپنے محبوب کے آنسو پینے کا عمل ہے۔ خودکشی جیسے فرار کے عمل کو دھنک رنگ دے کر مہکتا فعل ثابت کرنے سے کیا ناول نگار ختم ہوتی محبت کو فنا کا ایک اور جرعہ پیش نہیں کر رہا؟ اگر ممکن ہو تو ناول نگار کو اس پر غور کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ موت بے شک ایک خوبصورت تخلیقی عمل کی صورت عالمی ادب کا حصہ بنی ہے کہ یہ حیات نو کی علامت بھی ہوتی ہے مگر خود کشی کو فرار اور محبت کے علاوہ زندگی کی بھی توہین تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔
بات نفیسہ اور سلطان آدم کے بیچ آخری ملاقات کی ہورہی تھی اسی ملاقات میں نفیسہ سلطان آدم کو ایک ایسا سفید لفافہ بھی دیتی ہے جو بعد میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور ہوا اسے ادھر اُدھر اڑائے لیے پھرتی ہے۔ لفافے، ہوا اور سلطان آدم میں آنکھ مچولی کی تفصیلات اتنی طویل ہو جاتی ہیں کہ پڑھنے والا سلطان آدم کی طرح ہلکان ہو جاتا ہے پھر جب وہ اس لفافے کو کھولتا ہے تو اس میں سے کوئی بھی ایسی چیز برآمد نہیں ہوتی جو سلطان آدم کی مشقت کا جواز فراہم کر سکے۔
ایک اور موت کے سرسری تذکرے کے بعد کہانی میں خود کشی کر کے مرنے والے شاعر امین مسافر کا تذکرہ اس کی کمزور اور بے رس نظموں کے ساتھ آتا ہے۔ خود کشی کے ذریعے زندگی کی توہین کرنے والے کی محبت کا قصہ بھی سن لیجیے۔ اسے ایک ایسی عورت سے ناقابل یقین حد تک محبت ہو گئی تھی جس کے دل میں پہلے ہی ایک مرد رہتا تھا اور جسے اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ دنیا کا امیر ترین شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس محبت ہوتی ہے۔ امین مسافر کی ناکام محبت کے بعد خود کشی والی شام وہی شام تھی جب ساڑھے چار گھنٹے قبل ہی پھولوں کو سلطان آدم کی خود کشی کی منصوبہ بندی کی خبر ہو گئی تھی اور شہر کے تمام پھولوں نے اسے روکنے کے لیے رات گئے تک ناکام کوشش کی تھی۔ مجھے یہاں CONVREVEکی وہ بات دہرانی ہے جو اس نے اپنے مختصر ناول INCOGNITA میں1692ء میں کہی تھی۔
’’ناول معروف اور جانے پہچانے عوامل پر مشتمل ہوتا ہے اور روزمرہ کے واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ تعجب خیز واقعات اور حادثے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے نہیں جو ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہوں یا پھر ہمارے عقائد اور خیالات سے بہت زیادہ بعید ہوں۔۔۔‘‘
ایک بوسیدہ بات دہرانے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ میں ناقابل فہم اور ناقابل عمل صورت حال کو فکشن کا حصہ بنانے کے خلاف ہوں۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر میرا ذاتی خیال ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب واقعے، خیال یا احساس کو تحلیل کر کے اس کا جواز پیدا کر لیا جائے۔
بے جواز خود کشیوں، سیکنڈ ہینڈ محبتوں اور بے وفا عورتوں کے ایسے ہی تذکروں کے بعد مری ہوئی تتلیوں، پژمردہ پھولوں اور مردہ پرندوں کے دفنائے جانے کا منظر کھینچا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کہانی میں سلطان آدم کا دوست عبداللہ اور صادق ترکھان داخل ہو جاتے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی کہانیوں کے بیچ تابوت تیار ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش تابوت میں بند ہو کر اس شہر سے رخصت ہو جاتی ہے جس میں مرحوم نے پچیس سال گزارے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ناول کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ سچ جانیے تو یہیں پر ناول بھی ختم ہو جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے ناول کے اگلے دو حصے مصنف نے ذہنی پراگندی کے عرصے میں لکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ تو ناول سے جڑ پائے ہیں اور نہ ہی آپس میں مربوط ہیں۔ تحریر بھی سپاٹ اور بے رس ہو گئی ہے۔ بے سمتی کی شکار اس کہانی میں رفاقت علی کا تذکرہ ہوتا ہے جو سلطان آدم کا دوست ہے اور جسے اس نے خود کشی سے پہلے چٹھی لکھی تھی۔ یہ چٹھی سلطان آدم کی اس خواہش کا جواز فراہم نہیں کرتی کہ آخر وہ گاؤں میں دفن ہونے اور شہر سے کسی بھی فرد کا میت کے ساتھ گاؤں نہ جانے پر کیوں مصر تھا۔ چوہدری شیر بہادر، رضیہ، ناہید، رکھا ماچھی، نور دین، گلابا چنگڑ، شیرو مصلی، کرمو سانسی، یوسف ، شیرو، پرنسپل حسین، سفینہ سکول ٹیچر جمال، ریکارڈ کیپر مریم، پوسٹ ماسٹر حجازی، یاسمین، گل رانی، دلدار، فراست، جنید، چپڑاسی صدیق، ڈاکٹر ارشد، نذیر روگی، شوکت منیاری فروش، پائندہ خان، محبت جان اور روشن جان کی اپنی اپنی کہانیوں پر مشتمل اس دوسرے حصے کی طرح تیسرا حصہ بھی غیر متعلق واقعات سے اٹا پڑا ہے۔ اس آخری حصے میں جب کہانی تحریم، طالب زرگر، نرگس، مولوی رحمت اللہ، حافظ رمضان، کیلاش قبیلے اور کنٹکی سے ہوتی ہوئی شاہ پری کے اس سوال پر پہنچتی ہے کہ’’محبت کیا ہوتی؟‘‘ تو ایک طویل وقفے کے بعد ایک خوبصورت جملہ لطف دے جاتا ہے:
’’محبت کسی طوفانی موسم میں ایک ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے۔‘‘
پیر شرافت، جہاں آرا اور فیروز کے تذکرے میں ایک بار پھر اس عورت کا ذکر ہوتا ہے جو وفا کے نام پر بے وفائی اور بے وفائی کی صورت میں وفا کے عمل سے گزرتی ہے۔ مصنف ناول میں کسی حد تک اپنا یہ پیغام ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ:
* عورت سامنے کی چیزوں سے پیار کرتی ہے۔
* عشق صرف مرد کرتا ہے۔
* عورت صرف شادی کرتی ہے یا شادی کی غرض سے عشق اپنے اوپر طاری کر لیتی ہے۔
* عورت ایک چھت او ر اپنی بقا کے لیے افزائش نسل کرتی ہے۔
* عوت ایک جیل ہے۔
* پہلے صرف مرد بے وفا ہوا کرتے تھے اب یہی بے وفائی عورت نے بھی سیکھ لی ہے۔
* مرد عورت میں وفا تلاش کرنے لگا ہے تبھی تو محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
* اب عورت بھی دو مردوں سے محبت کا کھیل کھیلتی ہے۔
* زندگی اس مکار عورت کی طرح ہے جو مالی اور جسمانی عیاشیوں کی خاطر کئی مردوں سے جز وقتی محبت کا کھیل رچاتی ہے۔
* زندگی اس بے وفا عورت کی مانند ہے جس کی آنکھیں رات بھر کی میلی تھکن سے چور اور منہ لیس دار سانسوں کی بو کے بھبھکے چھوڑتا ہے۔
مصنف نے عورت اور زندگی کے بارے میں اپنے اس نقطہ نظر کو قدرے واضح انداز میں سلطان آدم کی زبانی وہاں بیان کیا ہے جہاں ٹیچر سلطان آدم کو طلب کر کے اسے لڑکیوں سے الجھنے اور ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کرتا ہے۔ یہاں سلطان آدم یوں گویا ہوتا ہے۔۔۔
’’ٹیچر یہ لڑکیاں نہیں بلیاں ہیں‘‘
مصنف کا کہنا ہے کہ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ زندگی بھر سلطان آدم ہمیشہ اس وقت کمرے سے باہر نکل جایا کرتا تھا جب وہ کسی بھی بلی کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا تھا۔ سلطان آدم کی زبان سے مصنف یہ جملے کہلواتا ہے:
’’بلیاں مجھے اس لیے بھی اچھی نہیں لگتیں کہ وہ چوہے کھاتی ہیں، سات گھر پھرتی ہیں، ایک بلے پر اکتفا نہیں کرتیں، مکاری اور چالاکی سے گھات لگا کر معصوم پرندوں کا شکار کر لیتی ہے۔‘‘
مصنف یہ بھی بتاتا ہے کہ سلطان آدم کو بلیوں کے زیادہ بچے جننے کی عادت بھی سخت ناگوار گزرتی تھی۔
مرد کو بھی اس ناول میں تقریباً اسی قسم کی بے وفائی کا مرتکب دکھایا گیا ہے مگر اسے اس قدر دلکش بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ وہ محبت کو بچانے والا بن گیا ہے۔ اس کا جواز مصنف کے پاس کیا ہے؟ میں نہیں جانتا تاہم ناول میں اس کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ رویہ مصنف کی نفسیاتی کجی کا شاخسانہ بن کا ظاہر ہوا ہے۔
ناول کے آخر میں مصنف سلطان آدم کی آخری خواہش کے احترام میں نصب کیے گئے لیٹر بکس کا تذکرہ کرتا ہے جسے معبد کا نام دیا گیا تھا۔ اور کنواری محبتوں سے اعتنا نہ رکھنے اور سیکنڈ ہینڈ گدلی محبتوں اور خود کشیوں کے ذریعے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کا دعویدار مصنف اپنا ناول اس جملے پر ختم کرتا ہے۔
’’محبت کی ایک نہیں کئی زندگیاں ہوتی ہیں‘‘
میں نے پورے ناول میں کئی زندگیوں والی محبت کو باسی جنس کے متعفن شیرے پر ہی منڈلاتے پایا ہے۔ فکری سطح پر محبت کا کوئی اعلیٰ تصور پوری تحریر میں نہیں ملتا، بے شمار رنگوں کا تذکرہ ہوتا ہے مگر محبت کے ساتھ اپنے تشریحی یا علامتی تعلق کو ظاہر کیے بغیر یہ تذکرہ بھی بے کار چلا جاتا ہے۔ لفظ سمفنی اور ہارمنی کو بار بار دہرانے والے مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس کے بچپن کے زمانے میں اس کی ماں نے ایک بہت بڑا پیانو اس کے اندر رکھ دیا تھا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مصنف کی بے اعتنائی سے اندر پڑا یہ پیانواب کاٹھ کباڑ میں بدل چکا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اسے ورجینیا وولف کا ناول The Yoyage Outضرور یاد ہوتا جس کا ایک کردار ناول لکھنے کے بارے میں یوں خیال ظاہر کرتا ہے:
’’میں ناول اس طرح اور اس مقصد کے لیے لکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی پیانو پر بیٹھتا ہے۔ میں اصل شے کو نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے پیش نظر تو وہ بات ہے جو چیزوں کی تہہ میں ہوتی ہے۔‘‘
اور مصنف کو یقیناًاس سے اتفاق ہو گا کہ کسی بھی تخلیق پارے کی تہہ میں یا باطن میں آرگینک یونٹی ہی وہ واحد شے ہوتی ہے جو اسے فن پارے کا درجہ دے سکتی ہے۔
دنیا سے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کے لیے لکھے جانے والے اس ناول میں محبت ہی کو موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر میرے پورے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ میں اس کہے سے متفق ہوں کہ ہر لکھنے والا اپنے مشاہدات، تجربات، شعور اور لاشعور ہی کو لکھتا ہے اور بیچ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جبلت کو رکھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں مجھے وہ شخص یاد آتا ہے جو ’’گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ کے پہلے افسانے میں موت کی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لرزتے بدن پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے حتیٰ کہ آنکھیں اسی کہانی کی لڑکی کے شفاف آنسو مستعار لے لیتی ہیں۔
ہنسی مجھے اپنے پہلے کے صریح بے وقوفانہ اندازے پر چھوٹتی ہے۔ میں نے جس کردار کے پوست میں مصنف کو تلاش کیا تھا، وہ تو وہاں تھا ہی نہیں۔۔۔ تب میرا دھیان موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی سمت ہو جاتا ہے اور وہاں وہ خوف زدہ شخص نظر آتا ہے جو خود ہی اپنی تخلیقی موت کو جرعہ جرعہ پی رہا ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر اتنے شدید صدمے سے دوچار ہوتا ہوں کہ میں آنکھوں سے اُمنڈتے آنسوؤں سے اپنا دامن بھگو لیتا ہوں۔
***