ہفتہ، 30 مئی، 2015

فکشن میرے عہد کا:محمد حمید شاہد

موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ اس خوفزدہ شخص کی کہانی ہے جس کے من میں اس خیال کا ناگ پھن پھیلا کر بیٹھ گیا تھا کہ وہ قتل کر دیا جائے گا۔۔۔ یہ وہ کہانی ہے جو مجھے اس قدر پسند آئی تھی کہ موت سے خوفزدہ اس کردار کی بے چارگی دکھ بن کر میرے اندر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔
’’گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی‘‘،’’ بارش کی باتوں میں بھیگتیلڑکی‘‘ ،’’ گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ اور’’ خط میں پوسٹ کی ہوئی دوپہر‘‘ مظہر الاسلام کی ایسی ہی کہانیوں کے مجموعے ہیں۔ ان کہانیوں میں موت، اِنتظار، دکھ اور جدائی جیسے موضوعات اپنی ترکیب کے نئے پن کی مہک دیتے جملوں میں یوں جگہ پاتے ہیں کہ ہر جملہ لطف دے جاتا ہے۔ ان افسانوی جملوں کی ندرت میں اتنی چمک ہوتی ہے کہ کہانی میں کسی بڑی اکائی کی تلاش کی خواہش کا سایہ بس ایک لمحے کو لہرا کر ذہن کے کونوں کھدروں میں کہیں گم ہو جاتا ہے۔
یوں نہیں ہے کہ مظہر کی کہانیوں میں کوئی واقعہ، خیال یا احساس ایک مکمل دائرہ نہیں بناتا۔۔۔ بہت سی کہانیوں میں یہ دائرہ بنتا بھی ہے اور کہیں کہیں تو وہ پرکار کا نوکیلا سرا سختی سے جما کر یوں گہری لکیر کھینچتا ہے کہ یہی لکیر کسی نوخیز لڑکی کی آنکھوں میں آنسوؤں سے پھیلنے والے کاجل کی طرح بھلی لگتی ہے۔ تاہم کہانی کے انجام کو آغاز سے جوڑ کر گھومتا دائرہ بنانا مظہر کا کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ اسے تو جملہ لکھنا ہوتا ہے، شاندار افسانوی جملہ۔۔۔ چھوئی موئی کی طرح خود میں سمٹا ہوا اور بند کنواری کلی کی طرح نوخیز۔۔۔ جب تک مظہر افسانے تسلسل اور توانائی سے لکھتا رہا ایسے ہی جملوں میں اس کی پوری شخصیت خوشبو کی طرح بس جاتی تھی۔
’’موت کی طرف کھلی کھڑکی‘‘ مظہر کے تیسرے مجموعے کی پہلی کہانی ہے۔ اس خوبصورت کہانی میں موت کی طرف کھلتی کھڑکی سے باہر جھانکتے شخص کے عقب میں کرسی پر بیٹھا ایک اور کردار بھی ہے جس کی طرف قاری کا فوری دھیان نہیں جاتا۔ یہ کردار موت سے خوفزدہ شخص کے خوف کی راکھ کرید رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی شخصیت کے چہرے سے پردہ بھی کھسکا رہا ہوتا ہے۔
جب اسرار بھری شخصیت کو اپنے تفتیشی جملوں سے ظاہر کرنے والا کردار موت سے خوفزدہ شخص سے استفسار کرتا ہے۔۔۔ آخر اسے کیوں قتل کر دیا جائے گا؟۔۔۔ تو موت کی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کا یہ جواب ہوتا ہے۔
’’وجوہات تو کئی ہو سکتی ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگوں کو میرا وجود ناگوار گزرتا ہے۔ بعض حلقوں میں ، میں انا پرست اور خوددار بھی مشہور ہوں۔ کچھ احباب ابھی تک مجھ سے سمجھوتہ نہیں کر پائے۔ بہت سے ایسے ہیں جو میری تنقید سننا پسند نہیں کرتے۔ ایک دوایسے بھی ہیں جن سے میری وفاداری ان کے دوستوں اور دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بہت سے لوگوں کو میری باتیں کڑوی لگتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو شکوہ ہے کہ میں انہیں ملنے نہیں جاتا۔۔۔ اور پھر ’’وہ‘‘ بھی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، وجوہات کا کیا ہے؟۔۔۔‘‘
کرید کرید کر پوچھنے والے شخص کے سوال کرنے کا ڈھنگ، سگریٹ سلگانے اور یکے بعد دیگرے کش لینے کی عادت، مخصوص مسکراہٹ، جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھنا اور آخر کار جیب سے پستول نکال کر میز پر رکھنے اور قتل کا ارادہ ملتوی کر کے باہر نکل جانے کے انداز سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہ جو کہا جاتا ہے کہ کہانی کہنے والا اپنی کہانی کے کسی نہ کسی کردار کے پوست میں چھپ کر بیٹھ جاتا ہے تو یہی وہ کردار ہے جس میں خود افسانہ نگار چھپا بیٹھا ہے۔
مگر ایک مدت گزرنے کے بعد ابھی ابھی کہ جب میں مظہر کا پہلا ناول پڑھ کر اٹھا ہوں مجھے اپنے تب کے خیال کی مجہولیت کی بابت سوچ کر شدید ہنسی کا دورہ پڑا ہے۔ اتنا شدید دورہ کہ میری آنکھیں اس کہانی کی لڑکی کے ان شفاف آنسوؤں سے بھر گئی ہیں جو موت کی طرف کھلی کھڑکی سے باہر جھانکنے والے کے لیے اس کی آنکھوں سے اُمنڈ پڑے تھے۔
مظہرالاسلام کی کہانیوں نے اردو ادب اور میرے دل میں ایک جیسا مقام بنایا ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ مجھے یہ خدشہ بھی پریشان کرتا رہا ہے کہ اپنے تخلیقی تجربے کے لیے اسلوب کا جو احاطہ مظہر نے چنا ہے اس پر وہ خود تو بڑی سہولت اور مہارت کے ساتھ ہوادار، روشن اور خوشنما محل بنا سکتا ہے ‘کسی بھی دوسرے شخص کے لیے اس اسلوب کے احاطے میں پوری طرح سمانے اور مکمل سانسوں کے ساتھ ٹھہرنے کی انتہائی کم گنجائش ہے۔ بہت پہلے جب یہ سنا تھا کہ مظہر ناول لکھ رہا ہے اور یہ کہ اس کا عنوان ’’تابوت‘‘ ہو گا تو تب ہی سے مجھے اس ناول کا انتظار سا ہو چلا تھا۔ پھر خبر آئی کہ ناول کا نام بدل کر ’’محبت‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ بعد کا عرصہ مظہر کی تخلیقی جلا وطنی کا عرصہ ہے۔ اس دوران اس کی روشن اور اجلی تصویر پر بہت سی دھول تہہ در تہہ جمتی چلی گئی۔ اس سارے عرصے میں مجھے اس کے ناول کا مزید شدت سے انتظار رہنے لگا کہ نہ جانے مجھے کیوں یقین سا ہو چلا تھا کہ جونہی اس کا ناول منظر عام پر آئے گا ساری دھول آپ ہی آپ جھڑ جائے گی۔
وہ ناول جسے ’’محبت‘‘ یا ’’تابوت‘‘ کے نام سے آنا تھا، ایک چونکا دینے والے نام اور ایک بڑے دعوے کی صورت مکمل طباعتی جمال کے ساتھ سامنے آیا تو میں نے اپنے اندر اس کے مطالعے کے اشتیاق کو فزوں تر پایا۔ ’’محبت، مردہ پھولوں کی سمفنی‘‘ کہ جسے مصنف نے بقلم خود ’’دنیا سے ختم ہوتی ہوئی محبت کو بچانے کے لیے لکھا گیا ناول‘‘ قرار دیا ہے، ابھی ابھی پڑھ کر فارغ ہوا ہوں اور میری آنکھوں سے وہ شفاف اور سچے آنسو چھلک پڑے ہیں جو اس تحریر کے آغاز میں حوالہ بن کر آنے والی کہانی میں موجود اس لڑکی کی آنکھوں میں بھیگ بن کر اترے تھے جو موت سے خوفزدہ شخص سے محبت کرتی تھی۔
ناول کا ابتدائیہ وہ مکالمہ ہے جو ’’کہنے لگی‘‘ اور ’’میں نے کہا‘‘ کے بیچ بڑے بڑے دعووں سے عبارت پاتا ہے۔ اس مکالمے میں مظہر نے اپنے ناول کو محبت کا عجائب گھر، سایوں اور خوابوں میں لپٹے نادر نمونوں کا سانس لیتا میوزیم اور بیسویں صدی کی آخری دہائی کا تاج محل قرار دیا ہے۔ اس میں اس رکاوٹ کی جانب بھی اشارہ ملتا ہے جو ناول کی تکمیل میں تاخیر کا باعث تھی۔ مظہر نے اس رکاوٹ کو شدید تنہائی کے منہ زور تھپڑوں کا نام دیا ہے۔ تاہم یہیں وضاحت بھی کی ہے کہ اس کے باعث اس کے اندر کاادیب لمبی تان کر سو گیا تھا، کہانی اس سے روٹھ گئی تھی اور اس کی اجلی تصویر پر دھول جمنے لگی تھی۔
ناول کے ابتدائیے میں جب ناول نگار ہر سچے دل کو محبت کا چرواہا اور اپنی ذات کو ایک ادیب، مصور، موسیقار، مجسمہ ساز اور کیمیا گر کا مجموعہ قرار دیتا ہے تو دھیان فوراً پائلو کوئلہوکے ناول ’’الکیمسٹ‘‘ کی طرف جاتا ہے۔۔۔ الکیمسٹ میں بھی ایک چرواہا اور ایک کیمیا دان ہے۔ جن کا تذکرہ ناول کو اسقدر شاندار بنا دیتا ہے کہ اس جانب خیال جاتے ہی میرے اندر مظہر کے زیر نظر ناول کے لیے بھی بے پناہ تجسس بھر جاتا ہے اور میں کامل یکسوئی اور توجہ سے اسے پڑھنے میں مصروف ہو جاتا ہوں۔
امرتا پریتم اور ظفر عظیم کے نام منسوب اور اس ناول کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ ’’پھولوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ دوسرا ’’پتوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ جبکہ آخری حصہ ’’محبت کے سایوں کی سمفنی‘‘ ہے۔ یوں ناول کے نام اور ان تینوں حصص کے عنوانات میں سمفنی کے لفظ کا استعمال مجبور کرتا ہے کہ اسے علامت کی سطح پر سوچا جائے اور ناول کے متن میں اس کی تعبیر تلاش کی جائے۔ اسی خیال کے باعث میں نے گمان کیا تھا کہ پورا ناول ایک آرکسٹرا کی صورت ہو گا جس میں مفہوم اور احساس کی رو ایک نغمے کا سا آہنگ لیے ہو گی اور یہ کہ اس ناول کے تینوں حصوں میں سوناتا کی طرح بظاہر مختلف لیکن باہم متصل، مسلسل اور ہم آمیز چلتوں سے کام لیا گیا ہوگا۔ مگرحیف کہ ایسا نہ ہوا۔ ہوا یوں کہ ناول کے ابتدائیے میں سمفنی کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہوتا۔ ناول مکمل طور پر پڑھنے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے یہ نام طباعت کے عرصے میں دیا گیا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اپنی کہانیوں میں علامت کو خوبصورتی سے برتنے والے مظہر کا دھیان سمفنی کو بطور علامت برتنے کی طرف کیو ں نہ گیا؟
چودہ ضمنی حصوں پر مشتمل ’’پھولوں کے سایوں کی سمفنی‘‘ سے موسوم پہلا اور طویل باب کہانی کے اس خارجی آہنگ اور جملوں کی ویسی ساخت پر مشتمل ہے جسے مظہر کی شناخت کہا جاتا ہے ۔ تاہم کہانی کا معنوی نظام بہت کٹا پھٹا اور غیر مربوط ہے۔ کہانی پھولوں کے اس پر اسرار طوفان کے منظر نامے سے شروع ہوتی ہے جس نے پورے شہر میں تباہی مچادی تھی۔ بے محبت موسم میں، محبت سے منسوب پھولوں کے اس طوفان میں لازوال انسانی جذبوں کا سارا ریکارڈ بھیگ گیا تھا۔ سب کے دلوں پر جدائی طاری تھی۔ باہر پھولوں کی ناقابل برداشت بوچھاڑ تھی اور موت کی خماری میں مسحور اس ناول کا مرکزی کردار سلطان آدم اپنے فلیٹ کے کمرے میں خود کشی کے ذریعے محبت کو بچانے کا شغل فرما رہا تھا۔
ناول کا پہلا حصہ خود کشی کے اس دلچسپ بیان سے شروع ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش کو اپنے اندر سمیٹ لینے والے تابوت کے اس کے اپنے گاؤں کی سمت روانہ ہونے پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے ناول کا یہی وہ حصہ ہے جس کی تکمیل پر ناول کا نام ’’تابوت‘‘ تجویز ہوا تھا۔
سلطان آدم کی اس کہانی میں بے انتہا خوبصورت، خالص، سچی اور سنہری چھتیس سالہ اس نفیسہ کا بھی ذکر آتا ہے جو بڑی دلجمعی اور توجہ سے اپنے شوہر اور اپنی جنسی ضرورتیں پوری کرتی رہتی ہے تاہم جب سلطان آدم سے ملتی ہے تو ایک مختلف عورت بن جاتی ہے۔ پہلی ملاقات میں جب اسے پتہ چلتا ہے کہ سلطان آدم محبت کی نشانیاں جمع کرتا ہے، دنیا سے محبت بچانے کی کوشش میں مصروف ہے اور بے وفائی کو پھیلنے سے روکنے کا عزم لیے ہوئے ہے تو اسے سلطان آدم کی باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔
ناول نگار نے اپنے اس ناول میں جا بجا جسم کے گرد گھومنے والی محبت کی چیختے چنگھاڑتے جملوں میں مذمت کی ہے۔ نمونے کے لیے صرف دو جملے:
* ’’محبت کا جنسی کشش اور دولت سے کوئی تعلق نہیں‘‘
* ’’کچھ مرد طوائف کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے عورت بنا دیتے ہیں اور کچھ عورت کے ساتھ رہتے ہیں اور اسے طوائف بنا دیتے
ہیں۔۔۔‘‘
اسی حصے میں وہ محبت کے حوالے سے یہ خوبصورت جملے بھی دیتا ہے:
* ’’محبت کی کہانی دراصل سیلاب کی کہانی ہے جس میں آپ کی انا
ڈوب جاتی ہے‘‘
* ’’کسی ایک بھی میلے لفظ، جملے، کج ادائی یا دل کی کسی غافل دھڑکن
سے محبت کے سیب کو کیڑا لگ جاتا ہے۔‘‘
صاحب یہ بات کتنی عجیب اور تکلیف دہ ہے کہ محبت کے حوالے سے اتنے خوبصورت جملے تخلیق کرنے والا اور جسم کے گرد گھومتی محبت کی مذمت کرنے والا خود اپنی کہانی کی محبت کو جسم سے اوپر اٹھا ہی نہیں پایا۔ مصنف کے ہاں جسم سے اوپر اٹھنے والی محبت کے کسی واضح تصور کی عدم موجودگی کے باعث لازوال محبت کی نشانیاں جمع کرنے والا سلطان آدم نفیسہ کو بے محبت لوگو ں سے متعارف کرانے کے دوران یہ اصرار کرتا ہوا ملتا ہے کہ:
’’یک طرفہ محبت کوئی محبت نہیں ہوتی‘‘
بے محبت لوگوں کی کہانیوں میں خضر لائبریرین کے قتل کی دلدوز خبر افسردگی بن کر برآمد ہوتی ہے۔ ناول نگار بتاتا ہے کہ قاتل لائبریرین کی بیوی شیریں کا چھوٹا بھائی تھا جو اسے چھوڑ کر ایک مالدار شخص کے پاس چلی گئی تھی۔ اس دلچسپ ضمنی کہانی میں ناول نگار لائبریرین کا یہ کارنامہ درج کرنا ضروری خیال کرتا ہے کہ وہ معاشرے کی کڑی روایات سے بغاوت کرنے والے نوجوان جوڑوں کو محبت کے نام پر اپنے گھر میں پناہ دیا کرتا تھا اور یہ بھی کہ جب شہر کی فٹ بال گراؤنڈ میں شراب پینے اور لڑکی کے ساتھ تنہائی میں گھومنے کے جرم میں انہیں کوڑے مارے جارہے تھے تو عین اس وقت خضر لائبریرین نے ایک نوجوان جوڑے کی محبت بچانے کے لیے انہیں گھر میں پناہ دی تھی۔۔۔ اتنا ’’شاندار‘‘ ریکارڈ رکھنے والے لائبریرین کی بیوی اسے محض اس لیے چھوڑ گئی تھی کہ اس کے جنسی ولولے اور جوش میں کمی آ چکی تھی۔
اپنے فلسفہ محبت کو جنس کے شیرے پر مکھی بنا کر بٹھانے کے بعد ناول نگار جانوروں اور پرندوں کو حنوط کرنے والے اس شخص کا قصہ چھیڑ دیتا ہے جس نے ایسے شکاری کی دوسری بیوی سے شادی کر لی تھی جو صرف پرندوں کا شکار کھیلتا تھا مگر پرندوں اور جانوروں کو حنوط کرنے والا شیر کا شکار کرنے کا دعویٰ کرتا تھا۔ بعد ازاں جب یہ کھلا کہ وہ جھوٹ بولتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
نفیسہ اور سلطان آدم کہانی میں ایک مرتبہ پھر ملتے ہیں۔ یہ دونوں کے درمیان آخری ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں نفیسہ اپنا ایک خواب سناتی ہے جس میں کتابوں میں پڑی نظر انداز شدہ تتلیاں زندہ ہو گئی تھیں۔ سلطان آدم ان تتلیوں کو نیک لوگوں کی روحیں قرار دیتا ہے اور یہ پیغام اخذ کرتا ہے کہ:
’’یہ موت کا موسم ہے۔ بہار کے سارے رنگ خودکشی کے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘
پھر سارا زور اس بات پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ خود کشی کا اپنا رنگ ہی نہیں مہک بھی ہوتی ہے اس کی اپنی ایک موج ہوتی ہے اس میں ترنگ اور گرمجوشی ہوتی ہے اور یہ کہ خود کشی اپنے محبوب کے آنسو پینے کا عمل ہے۔ خودکشی جیسے فرار کے عمل کو دھنک رنگ دے کر مہکتا فعل ثابت کرنے سے کیا ناول نگار ختم ہوتی محبت کو فنا کا ایک اور جرعہ پیش نہیں کر رہا؟ اگر ممکن ہو تو ناول نگار کو اس پر غور کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ موت بے شک ایک خوبصورت تخلیقی عمل کی صورت عالمی ادب کا حصہ بنی ہے کہ یہ حیات نو کی علامت بھی ہوتی ہے مگر خود کشی کو فرار اور محبت کے علاوہ زندگی کی بھی توہین تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔
بات نفیسہ اور سلطان آدم کے بیچ آخری ملاقات کی ہورہی تھی اسی ملاقات میں نفیسہ سلطان آدم کو ایک ایسا سفید لفافہ بھی دیتی ہے جو بعد میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور ہوا اسے ادھر اُدھر اڑائے لیے پھرتی ہے۔ لفافے، ہوا اور سلطان آدم میں آنکھ مچولی کی تفصیلات اتنی طویل ہو جاتی ہیں کہ پڑھنے والا سلطان آدم کی طرح ہلکان ہو جاتا ہے پھر جب وہ اس لفافے کو کھولتا ہے تو اس میں سے کوئی بھی ایسی چیز برآمد نہیں ہوتی جو سلطان آدم کی مشقت کا جواز فراہم کر سکے۔
ایک اور موت کے سرسری تذکرے کے بعد کہانی میں خود کشی کر کے مرنے والے شاعر امین مسافر کا تذکرہ اس کی کمزور اور بے رس نظموں کے ساتھ آتا ہے۔ خود کشی کے ذریعے زندگی کی توہین کرنے والے کی محبت کا قصہ بھی سن لیجیے۔ اسے ایک ایسی عورت سے ناقابل یقین حد تک محبت ہو گئی تھی جس کے دل میں پہلے ہی ایک مرد رہتا تھا اور جسے اس بات سے اتفاق نہیں تھا کہ دنیا کا امیر ترین شخص وہ ہوتا ہے جس کے پاس محبت ہوتی ہے۔ امین مسافر کی ناکام محبت کے بعد خود کشی والی شام وہی شام تھی جب ساڑھے چار گھنٹے قبل ہی پھولوں کو سلطان آدم کی خود کشی کی منصوبہ بندی کی خبر ہو گئی تھی اور شہر کے تمام پھولوں نے اسے روکنے کے لیے رات گئے تک ناکام کوشش کی تھی۔ مجھے یہاں CONVREVEکی وہ بات دہرانی ہے جو اس نے اپنے مختصر ناول INCOGNITA میں1692ء میں کہی تھی۔
’’ناول معروف اور جانے پہچانے عوامل پر مشتمل ہوتا ہے اور روزمرہ کے واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ تعجب خیز واقعات اور حادثے بھی ہوتے ہیں لیکن ایسے نہیں جو ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہوں یا پھر ہمارے عقائد اور خیالات سے بہت زیادہ بعید ہوں۔۔۔‘‘
ایک بوسیدہ بات دہرانے کا یہ مقصد ہر گز نہیں ہے کہ میں ناقابل فہم اور ناقابل عمل صورت حال کو فکشن کا حصہ بنانے کے خلاف ہوں۔ ایسا ہو سکتا ہے مگر میرا ذاتی خیال ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب واقعے، خیال یا احساس کو تحلیل کر کے اس کا جواز پیدا کر لیا جائے۔
بے جواز خود کشیوں، سیکنڈ ہینڈ محبتوں اور بے وفا عورتوں کے ایسے ہی تذکروں کے بعد مری ہوئی تتلیوں، پژمردہ پھولوں اور مردہ پرندوں کے دفنائے جانے کا منظر کھینچا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کہانی میں سلطان آدم کا دوست عبداللہ اور صادق ترکھان داخل ہو جاتے ہیں۔ دونوں کی اپنی اپنی کہانیوں کے بیچ تابوت تیار ہوتا ہے اور سلطان آدم کی نعش تابوت میں بند ہو کر اس شہر سے رخصت ہو جاتی ہے جس میں مرحوم نے پچیس سال گزارے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ناول کا پہلا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔ سچ جانیے تو یہیں پر ناول بھی ختم ہو جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے ناول کے اگلے دو حصے مصنف نے ذہنی پراگندی کے عرصے میں لکھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نہ تو ناول سے جڑ پائے ہیں اور نہ ہی آپس میں مربوط ہیں۔ تحریر بھی سپاٹ اور بے رس ہو گئی ہے۔ بے سمتی کی شکار اس کہانی میں رفاقت علی کا تذکرہ ہوتا ہے جو سلطان آدم کا دوست ہے اور جسے اس نے خود کشی سے پہلے چٹھی لکھی تھی۔ یہ چٹھی سلطان آدم کی اس خواہش کا جواز فراہم نہیں کرتی کہ آخر وہ گاؤں میں دفن ہونے اور شہر سے کسی بھی فرد کا میت کے ساتھ گاؤں نہ جانے پر کیوں مصر تھا۔ چوہدری شیر بہادر، رضیہ، ناہید، رکھا ماچھی، نور دین، گلابا چنگڑ، شیرو مصلی، کرمو سانسی، یوسف ، شیرو، پرنسپل حسین، سفینہ سکول ٹیچر جمال، ریکارڈ کیپر مریم، پوسٹ ماسٹر حجازی، یاسمین، گل رانی، دلدار، فراست، جنید، چپڑاسی صدیق، ڈاکٹر ارشد، نذیر روگی، شوکت منیاری فروش، پائندہ خان، محبت جان اور روشن جان کی اپنی اپنی کہانیوں پر مشتمل اس دوسرے حصے کی طرح تیسرا حصہ بھی غیر متعلق واقعات سے اٹا پڑا ہے۔ اس آخری حصے میں جب کہانی تحریم، طالب زرگر، نرگس، مولوی رحمت اللہ، حافظ رمضان، کیلاش قبیلے اور کنٹکی سے ہوتی ہوئی شاہ پری کے اس سوال پر پہنچتی ہے کہ’’محبت کیا ہوتی؟‘‘ تو ایک طویل وقفے کے بعد ایک خوبصورت جملہ لطف دے جاتا ہے:
’’محبت کسی طوفانی موسم میں ایک ابابیل کا اچانک کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا جانا ہے۔‘‘
پیر شرافت، جہاں آرا اور فیروز کے تذکرے میں ایک بار پھر اس عورت کا ذکر ہوتا ہے جو وفا کے نام پر بے وفائی اور بے وفائی کی صورت میں وفا کے عمل سے گزرتی ہے۔ مصنف ناول میں کسی حد تک اپنا یہ پیغام ظاہر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ:
* عورت سامنے کی چیزوں سے پیار کرتی ہے۔
* عشق صرف مرد کرتا ہے۔
* عورت صرف شادی کرتی ہے یا شادی کی غرض سے عشق اپنے اوپر طاری کر لیتی ہے۔
* عورت ایک چھت او ر اپنی بقا کے لیے افزائش نسل کرتی ہے۔
* عوت ایک جیل ہے۔
* پہلے صرف مرد بے وفا ہوا کرتے تھے اب یہی بے وفائی عورت نے بھی سیکھ لی ہے۔
* مرد عورت میں وفا تلاش کرنے لگا ہے تبھی تو محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔
* اب عورت بھی دو مردوں سے محبت کا کھیل کھیلتی ہے۔
* زندگی اس مکار عورت کی طرح ہے جو مالی اور جسمانی عیاشیوں کی خاطر کئی مردوں سے جز وقتی محبت کا کھیل رچاتی ہے۔
* زندگی اس بے وفا عورت کی مانند ہے جس کی آنکھیں رات بھر کی میلی تھکن سے چور اور منہ لیس دار سانسوں کی بو کے بھبھکے چھوڑتا ہے۔
مصنف نے عورت اور زندگی کے بارے میں اپنے اس نقطہ نظر کو قدرے واضح انداز میں سلطان آدم کی زبانی وہاں بیان کیا ہے جہاں ٹیچر سلطان آدم کو طلب کر کے اسے لڑکیوں سے الجھنے اور ان کے ساتھ بد سلوکی سے منع کرتا ہے۔ یہاں سلطان آدم یوں گویا ہوتا ہے۔۔۔
’’ٹیچر یہ لڑکیاں نہیں بلیاں ہیں‘‘
مصنف کا کہنا ہے کہ شاید یہی وجہ رہی ہو گی کہ زندگی بھر سلطان آدم ہمیشہ اس وقت کمرے سے باہر نکل جایا کرتا تھا جب وہ کسی بھی بلی کو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے دیکھتا تھا۔ سلطان آدم کی زبان سے مصنف یہ جملے کہلواتا ہے:
’’بلیاں مجھے اس لیے بھی اچھی نہیں لگتیں کہ وہ چوہے کھاتی ہیں، سات گھر پھرتی ہیں، ایک بلے پر اکتفا نہیں کرتیں، مکاری اور چالاکی سے گھات لگا کر معصوم پرندوں کا شکار کر لیتی ہے۔‘‘
مصنف یہ بھی بتاتا ہے کہ سلطان آدم کو بلیوں کے زیادہ بچے جننے کی عادت بھی سخت ناگوار گزرتی تھی۔
مرد کو بھی اس ناول میں تقریباً اسی قسم کی بے وفائی کا مرتکب دکھایا گیا ہے مگر اسے اس قدر دلکش بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ وہ محبت کو بچانے والا بن گیا ہے۔ اس کا جواز مصنف کے پاس کیا ہے؟ میں نہیں جانتا تاہم ناول میں اس کا کوئی جواز فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ رویہ مصنف کی نفسیاتی کجی کا شاخسانہ بن کا ظاہر ہوا ہے۔
ناول کے آخر میں مصنف سلطان آدم کی آخری خواہش کے احترام میں نصب کیے گئے لیٹر بکس کا تذکرہ کرتا ہے جسے معبد کا نام دیا گیا تھا۔ اور کنواری محبتوں سے اعتنا نہ رکھنے اور سیکنڈ ہینڈ گدلی محبتوں اور خود کشیوں کے ذریعے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کا دعویدار مصنف اپنا ناول اس جملے پر ختم کرتا ہے۔
’’محبت کی ایک نہیں کئی زندگیاں ہوتی ہیں‘‘
میں نے پورے ناول میں کئی زندگیوں والی محبت کو باسی جنس کے متعفن شیرے پر ہی منڈلاتے پایا ہے۔ فکری سطح پر محبت کا کوئی اعلیٰ تصور پوری تحریر میں نہیں ملتا، بے شمار رنگوں کا تذکرہ ہوتا ہے مگر محبت کے ساتھ اپنے تشریحی یا علامتی تعلق کو ظاہر کیے بغیر یہ تذکرہ بھی بے کار چلا جاتا ہے۔ لفظ سمفنی اور ہارمنی کو بار بار دہرانے والے مصنف کا دعویٰ ہے کہ اس کے بچپن کے زمانے میں اس کی ماں نے ایک بہت بڑا پیانو اس کے اندر رکھ دیا تھا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مصنف کی بے اعتنائی سے اندر پڑا یہ پیانواب کاٹھ کباڑ میں بدل چکا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اسے ورجینیا وولف کا ناول The Yoyage Outضرور یاد ہوتا جس کا ایک کردار ناول لکھنے کے بارے میں یوں خیال ظاہر کرتا ہے:
’’میں ناول اس طرح اور اس مقصد کے لیے لکھنا چاہتا ہوں جیسے کوئی پیانو پر بیٹھتا ہے۔ میں اصل شے کو نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے پیش نظر تو وہ بات ہے جو چیزوں کی تہہ میں ہوتی ہے۔‘‘
اور مصنف کو یقیناًاس سے اتفاق ہو گا کہ کسی بھی تخلیق پارے کی تہہ میں یا باطن میں آرگینک یونٹی ہی وہ واحد شے ہوتی ہے جو اسے فن پارے کا درجہ دے سکتی ہے۔
دنیا سے معدوم ہوتی محبت کو بچانے کے لیے لکھے جانے والے اس ناول میں محبت ہی کو موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر میرے پورے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ میں اس کہے سے متفق ہوں کہ ہر لکھنے والا اپنے مشاہدات، تجربات، شعور اور لاشعور ہی کو لکھتا ہے اور بیچ میں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جبلت کو رکھتا چلا جاتا ہے۔ ایسے میں مجھے وہ شخص یاد آتا ہے جو ’’گڑیا کی آنکھ سے شہر کو دیکھو‘‘ کے پہلے افسانے میں موت کی کھڑکی سے باہر جھانک رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میرے لرزتے بدن پر ہنسی کا دورہ پڑتا ہے حتیٰ کہ آنکھیں اسی کہانی کی لڑکی کے شفاف آنسو مستعار لے لیتی ہیں۔
ہنسی مجھے اپنے پہلے کے صریح بے وقوفانہ اندازے پر چھوٹتی ہے۔ میں نے جس کردار کے پوست میں مصنف کو تلاش کیا تھا، وہ تو وہاں تھا ہی نہیں۔۔۔ تب میرا دھیان موت کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی سمت ہو جاتا ہے اور وہاں وہ خوف زدہ شخص نظر آتا ہے جو خود ہی اپنی تخلیقی موت کو جرعہ جرعہ پی رہا ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کر اتنے شدید صدمے سے دوچار ہوتا ہوں کہ میں آنکھوں سے اُمنڈتے آنسوؤں سے اپنا دامن بھگو لیتا ہوں۔
***

جمعہ، 22 مئی، 2015

زندہ/مردہ(باد)

مارک ٹوئن کا اصل نام سیموئل لینگون کلیمنزتھا، وہ 1835 میں فلوریڈا، مسوری، امریکہ میں پیدا ہوئے اور 1910میں کنیکٹیکٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ بارہ سال کی عمر میں اپنی تعلیم کا سلسلہ ذمہ داریوں کی وجہ سے منقطع کرنا پڑاچنانچہ مارک ٹوئن نے اسکول چھوڑ دیا اور اسٹیم بوٹ پائلٹ، جرنی مین اور سپاہی کے فرائض مختلف اوقات میں اد ا کیے مگر اپنی تحریروں سےخاص طور پر مارک نے اچھی خاصی رقم کمائی اور کچھ کاموں میں بغیر سوچے سمجھے رقم لگانے کی وجہ سے انہیں بہت سے معاشی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔1870 میں اولیویالینگرون نام کی ایک عورت سے ان کی شادی ہوئ جو کہ 1904 تک ان کی رفیق حیات رہیں اور پھر انتقال کرگئیں۔مارک ٹوئن نے اپنی زندگی میں سخت مذہبی رویوں پر زبردست تنقید کی ہے، مثال کے طور پر انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ 'عقیدہ اس بات کو مانتے رہنے کا نام ہے، جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔'اسی طرح انہوں نے ایک اور جگہ لکھا کہ'اگر عیسی مسیح آج ہمارے درمیان ہوتے تو بالضرور وہ تو بالکل نہ ہوتے جو ہم ہیں۔۔۔یعنی مسیحی!'مارک ٹوئن کی درج ذیل کہانی Party cries in Irelandکا ترجمہ ہے۔ حالانکہ یہ کہانی بے حد مختصر ہے لیکن مارک ٹوئن کے مذہب، سماج اور لوگوں کی اندھی عقیدت کے بارے میں خیالات کونمایاں کرنے میں کامیاب ہے۔
...

بیلفاسٹ ایک مذہبی شهر ہے، جو کہا جاسکتا ہے کہ پورے شمالی آئرلینڈ میں آباد ہے۔یہاں آباد لوگوں میں سے آدھے پروٹسٹنٹ ہیں اور آدھے کیتھولک۔ہر فرقہ کو اپنے مذہبی اصولوں کی تبلیغ کرنے کی آزادی حاصل ہے، ہر بار ان کی تقاریر کو شدید اشتیاق کے ساتھ سنا جاتا ہے۔ایک ہفتہ قبل، اک بڑی تعداد میں کیتھولک لوگ ایک نئے چرچ کی بنیاد ڈالنے کی غرض سے آرمغ نامی جگہ پر جمع ہوئے۔مگر جب انہوں نے واپس گھر کی راہ لی تو راستے میں ہی ان پر حلیم و نیک طبع پروٹسٹنٹس نے پتھروں سے حملہ کردیا، یہاں تک کہ وہ تمام راستہ خون سے لبالب بھر گیا۔مجھے لگتا تھا کہ صرف کیتھولک ہی تشدد کی اس زبان میں بات کرنا جانتے ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ یہ میری بہت بڑی غلط فہمی تھی۔
فرقے کا ہر آدمی مبلغ بنا ہوا ہے اور لعنت و ملامت کی ایک اینٹ ہاتھ میں اٹھائے پھر رہا ہے۔قانون نے اس پر لگام کسنے کی بہت کوشش کی مگر مکمل کامیابی کبھی نہیں ملی۔آخر کار فیصلہ ہوا کہ اس طرح کی فرقہ پرستی کو برداشت نہیں کیا جائے گااور جو لوگ بھی اس طرح کی حرکت میں ملوث پائے گئے انہیں چالیس شلنگ کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔پولس روزانہ اس کی رپورٹ جمع کرے اور کوئی نگراں ان ریکارڈز کا جائزہ لے ۔پچھلے ہفتے ایک بارہ سال کی لڑکی پربھری سڑک پر چلا چلا کر اپنے پروٹسٹنٹ ہونے کا اعلان کرنے کے عوض اسی قسم کا جرمانہ عائد ہوا۔’پوپ مردہ باد’ یا ’پروٹسٹنٹ مردہ باد‘ اب دونوں جانب کے شدت پسندوں کاایک عام نعرہ بن گئے تھے ۔
بیلفاسٹ کا ایک مقامی لطیفہ اس معاملے میں سننے سے تعلق رکھتا ہے۔یہ پولس اور اسی قسم کے مذہبی نعروں اور چالیس شلنگ کے جرمانے سے متعلق ہے، اور کسی غریب کے لیے یہ جرمانہ ہر صورت میں کافی مہنگا تھا۔لوگ بتاتے ہیں کہ ایک پولس والے نے ، ایک تنگ و تاریک گلی میں زمین پر لیٹے ہوئے ایک شرابی کو دیکھا جو کہ اپنی ترنگ میں چلا رہا تھا۔
’’مردہ باد، مردہ باد۔۔۔۔‘‘
پولس والا بیتابی سے آگے بڑھا کیونکہ اطلاع کرنے والے کو جرمانے کی آدھی رقم دی جاتی تھی۔
’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘
’مردہ باد!‘
’کون مردہ باد! کیا مردہ باد؟‘
’ابے جا۔۔۔۔اسے اپنے آپ پورا کرلے۔یہ پورا نعرہ مجھے بہت مہنگا پڑے گا!‘
میرے خیال میں مفسدانہ رویے کی راہ میں صرف معاشی مجبوری ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے۔

ترجمہ نگار:تصنیف حیدر

جمعرات، 21 مئی، 2015

میر تقی میر کی ساری غزلیں


کلیات میر کی ان پیج فائلوں کی اہمیت

ان فائلوں میں میر تقی میر کی ساری غزلیں موجود ہیں۔جن کی تعداد 1916 ہے۔میر تقی میر اردو ادب کے نہایت اور مشہور شاعر ہیں ، ان کی پیدائش 1723میں آگرہ شہر میں ہوئی اور انتقال 1810 میں لکھنئو شہر میں ہوا۔زندگی انتشار اور سکون کے کچھ ملے جلے دور میں گزری مگر ذہن کے شاعرانہ انتشار نے میر کو کبھی خود سکون سے بیٹھنے نہیں دیا۔ میر زندگی کے مشاہدے کا اردو غزل میں اب تک سب سے بڑا شاعر ہے۔ جس کی اہمیت کو اردو کے ہر بڑے نقاد نے تسلیم کیا ہے۔میر کی زندگی کے حالات اور خیالات کے لیے نکات الشعرا، ذکر میر(جو کہ فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں انٹرنیٹ پر موجود ہے)فیض میر وغیرہ اہم ہیں، جن کو خود میر نے ہی لکھا ہے۔ نثار احمد فاروقی نے میر کے اپنے لکھے ہوئے بہت سے حالات میں ان کے مبالغےکی بھی نشاندہی کی ہے،ان سب کے علاوہ میر کے حالات بہت سے اردو تذکروں مثال کے طور پر گلشن ہند،مجموعہء نغز، گلشن بے خاروغیرہ میں موجود ہیں۔اردو شاعری کے باب میں مطالعہء میر کی اہمیت ہمیشہ نمایاں رہے گی۔یہ ان پیج فائلیں ایک زپ فولڈر میں موجو د ہیں، جن کی تعداد دس ہے،(2 سے 11 تک موجود ان فائلوں میں فائل نمبرایک اس لیے موجود نہیں ہے کیونکہ وہ مضامین پر مشتمل ہے، اور اسے میریات کے باب میں اردو دنیا پر کسی اور موقع پر ڈائونلوڈ کے لیے فراہم کیا جائے گا۔جس طرح میر کی دوسری شعری اصناف پر مشتمل فائلیں بھی ایک الگ موقع پر ادبی دنیا ویب سائٹ پر ڈائونلوڈنگ کے لیے فراہم کرائی جائیں گی۔)میر کی غزلوں کی دی جانےوالی ان ڈائونلوڈایبل فائلز کا مقصد یہی ہے کہ اب آسانی سے ان کو یونی کوڈ میں کنورٹ کرکے کوئی شخص بھی اسے فیس بک، میل ، ٹوئٹر یا کسی اور ذریعے سے کہیں بھی شیئر کرسکتا ہے، انہیں ڈائونلوڈ کرکے آپ اپنے کمپیوٹر میں فارغ اوقات میں پڑھ سکتے ہیں۔بہتر نشتروں کا زمانہ گزر گیا ہے، اب میر کے ان ہزاروں نشتروں سے آپ سینہء ذوق بصد شوق چھلنی کرواسکتے ہیں۔

ڈائونلوڈ کرنے کا طریقہ

'میر کی ساری غزلیں' کے عنوان پر کلک کرکے آپ شیئر فورڈ کی ویب سائٹ پر پہنچ جائیں گے، وہاں انگریزی میں کلیات میر لکھا ہوگااور ساتھ میں نیچے ڈائونلوڈ اور شیئر کے بٹن دیے گئے ہونگے۔ڈائونلوڈ پر کلک کرتے ہی ایک دوسرا برائوزر بھی کھل جائے گا، مگر وہ ایک اشتہاری برائوزر ہوگا جسے آپ کو کلوز یعنی بند کردینا ہے، اب آپ واپس اسی صفحے تک پہنچ جائیں گے۔ ڈائونلوڈنگ کے لیے وہاں دو آپشن موجود ہونگے۔

1۔پریمیم ڈائونلوڈ:اس کے ذریعے وہی لوگ ڈائونلوڈنگ کرسکتے ہیں، جو کہ شیئر فورڈ کی طے شدہ قیمت دے کر اس کے ممبر بننا چاہتے ہوں یا پہلے سے ممبر ہوں، اس میں انتظار کی زحمت بالکل نہیں اٹھانی پڑتی ہے، اور کلک کرتے ہی فائل ڈائونلوڈ ہوجاتی ہے۔

2۔فری ڈائونلوڈ: اس آپشن پر کلک کرنے کے بعد آپ کو تقریبا بیس سے تیس سکینڈ تک کا انتظار کرنا ہوگا، جب لکھے ہوئے بیس یا تیس سکینڈس کا عرصہ مکمل ہوجائے گا تو آپ کی فائل ڈائونلوڈ ہوسکے گی۔اس کے لیے آپ کو شیئر فورڈ کا ممبر بننے یا کوئی قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

فائل ڈائونلوڈ ہونے کے بعد آپ کے کمپیوٹر کے 'ڈائونلوڈز' فولڈر میں چلی جائے گی۔اب آپ اس برائوزر کو کلوز یا منی مائز کرکے وہاں جائیں، وہاں 'کلیات میر' کی فائل پر جائیں اور رائٹ کلک کریں۔رائٹ کلک کرتے ہی بہت سارے آپشن آجائیں گے، جن میں سے آپ کو 'ایکزٹریکٹ آل(Extract All)کے آپشن پر کلک کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ایک مزید ونڈواوپن ہوگی، جس میں ایکزٹریکٹ یا کینسل کے بٹن موجود ہونگے، ایکزٹریکٹ پر کلک کرنے سے فائل اپنے آپ ڈائونلوڈز فولڈر میں ہی ایک سادے فولڈر کی صورت میں سیو ہوجائے گی اور کینسل پر کلک کرنے سے یہ عمل رک جائے گا۔

اس کے بعد اس سادے فولڈر میں جاکر آپ ان تمام دس ان پیج فائلوں کو پڑھ سکتے ہیں۔


کیا آپ کے کمپیوٹر میں ان پیج موجود نہیں ہے؟

اگر آپ ان تمام فائلوں کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور یہ سوچ کر مایوس ہورہے ہیں کہ آپ کے کمپیوٹر میں ان پیج موجود نہیں ہے تو گھبرائیے مت ! انٹرنیٹ پر بہت سے ان پیج ورجن پہلے سے موجود ہیں۔ یہاں ہم آپ کی سہولت کے لیے ان پیج 2012کو ڈائونلوڈ کرنے کا لنک دے رہے ہیں۔امید ہے کہ یہاں سے ان پیج ڈائونلوڈ کرنے کے بعد آپ اطمینان سے میر کی غزلوں یا ہماری طرف سے فراہم کرائی جانے والی دوسری اہم ادبی کتابوں یا تخلیقات و تنقیدات کا لطف حاصل کرسکیں گے۔




بدھ، 20 مئی، 2015

اجمل کمال کی تحریر

حال ہی میں مجھے ’’احیائے علوم‘‘ کے چند گزشتہ شماروں کے مشمولات اور اجتہاد کے موضوع سے متعلق کچھ اورتحریریں کم و بیش ایک ساتھ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان میں کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ کا ’’جریدہ‘‘ بھی تھا جس کے شمارہ ۳۳ میں علامہ اقبال کے ان خطبات پر جنھیں بعد میں ’’اسلامی فکر کی تشکیل نو‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا، علامہ سید سلیمان ندوی کے تبصرے شامل ہیں۔ ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس بات کی وجہ جاننے کی بہت کوشش کی کہ علامہ ندوی نے اپنے ان خیالات کا اظہار علامہ اقبال کی زندگی میں کرنے سے کیوں احتراز کیا، لیکن انھیں اپنے اس استفسار کا جواب کہیں سے نہ مل سکا۔ (آپ دیکھیں گے کہ ان تبصرات میں حکیم الامت کا ذکر ہر جگہ بالالتزام ’’اقبال مرحوم‘‘ کے نام سے آتا ہے۔) دراصل اقبال کے خللِ ایمان کے بارے میں اپنی قطعی دوٹوک رائے کے باوجود علامہ ندوی کسی سبب سے ان کی شاعری کو ملت کے لیے مفید خیال کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اقبال کے بزعم خود اجتہاد پر نہ صرف اپنی رائے برسرعام ظاہر نہیں کی بلکہ دریاباد والے مولانا ماجد کو بھی کسی نہ کسی طرح آمادہ کر لیا کہ وہ صبر سے کام لیں ورنہ بقول علامہ ندوی ’’مولانا ماجد تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں ہے کتابی صورت میں تحریر کر دیں‘‘۔ علامہ ندوی نے اقبال کے عقیدت مندوں پر بیش بہا احسان کیا ورنہ مولانا ماجد کی غیرت کو اپنے عملی اظہار کا موقع مل جاتا تو خدانخواستہ شاعرمشرق کے ساتھ بھی لاہور کی سڑکوں پر وہی سلوک ہو سکتا تھا جو یگانہ کے ساتھ لکھنؤ میں ہوا۔ اسے علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق سے علامہ اقبال کے اچھے روابط کا کرشمہ جاننا چاہیے (یگانہ سے غالباً یہیں چوک ہوئی) کہ وہ کافر اور ملحد ٹھہرائے جانے کے باوجود رحمت اﷲ علیہ بھی کہلاتے ہیں—یا ممکن ہے ان دونوں باتوں میں تضاد صرف ظاہر کی آنکھ سے تماشا کرنے والوں کو دکھائی دیتا ہو۔
علامہ ندوی کو اس امر میں قطعاً شبہ نہیں کہ علامہ اقبال خطبات میں ظاہر کیے گئے اپنے خیالات کی بنیاد پر کفر، الحاد اور تحریف (بلکہ اس سے بدتر) کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ یہ تمام الفاظ علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق جس سہولت اور بےتکلفی سے استعمال کرتے ہیں اس پر وﷲ رشک آتا ہے۔ ’’جریدہ‘‘ ہی کے شمارہ ۳۴ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اکادمی لاہور کے سربراہ محمد سہیل عمر اور خود ’’جریدہ‘‘ کے مدیر خالد جامعی بھی خطبات کے بارے میں کم وبیش وہی رائے رکھتے ہیں جو علامہ ندوی کی ہے۔ کس قدر قلبی طمانینت اور شکر کا مقام ہے کہ علامہ ندوی اور مولانا ماجد کے سانحہ ٔ ارتحال کے بعد اقبال کا ایمان اور ہم گناہگاروں کی دنیا و عقبیٰ ان دونوں علمائے حق کے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ یہ امر البتہ عقلِ محدود کی رسائی سے باہر ہے کہ کائنات کی حرکت یا خودی بمقابلہ خدائی یا علمائے حق کے بلا شرکتِ غیرے حقِ اجتہاد کے موضوعات پر جن خیالات کو نثر (انگریزی یا اردو) میں ظاہر کرنے سے کفر کا فتویٰ وارد ہوتا ہے انھی کو کسی رواں دواں بحر میں ڈھال دینے سے (مثلاً ’’یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید/ کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون‘‘، یا ’’یزداں بہ کمند آور اے ہمت مردانہ‘‘، یا’’دینِ ملّا فی سبیل ﷲ فساد‘‘) ملت کا ایمان تازہ کرنے والی شاعری کیونکر پیدا ہو سکتی ہے۔ چونکہ کلام اقبال محدود عقل رکھنے والے عوام الناس یا جمہورِ امت کی نگاہ سے بھی گزر سکتا ہے، اس لیے اقبال اکادمی کے اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی شائع کردہ کلیات اقبال میں سے اس قسم کے اشعار کو خارج کرنے کا اہتمام کریں۔ اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ ہو گا کہ کلیات کی ضخامت ایک چوتھائی سے کم رہ جائے گی؛ اشاعت کے اخراجات میں ہونے والی اس بچت سے اکادمی کے صاحبِ ایمان و اجتہاد عملے کے مشاہرے میں اضافے کی گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔
علامہ ندوی اور محمد سہیل عمر دونوں شہادت دیتے ہیں کہ اقبال نے رحلت سے پیشتر اپنے کفروالحاد پر مبنی خیالات سے رجوع کر لیا تھا اور خطبات پر نظرثانی کا ارادہ رکھتے تھے لیکن پیکِ اجل نے انھیں اس کی مہلت نہ دی۔ اس معتبر شہادت کی بنیاد پر خطبات کا متن منسوخ ٹھہرتا ہے، چنانچہ خطبات کی متواتر اشاعت اور ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں ان کے ترجمے کا کام جاری رکھنے کا بھی کوئی جواز نہیں معلوم ہوتا۔ اسے روک دینے سے قومی خزانے پر پڑنے والا بوجھ مزید کم ہو سکتا ہے اور امت بھی ان گمراہ کن خیالات سے محفوظ رہ سکتی ہے۔
اجتہاد کے موضوع پر آپ نے شمارہ ۸ اور ۹ میں جن تحریروں کو جگہ دی ہے ان میں باہم متضاد خیالات ظاہر کیے گئے ہیں۔ خود آپ کا کہنا ہے کہ موجودہ دور میں غزالی اور ابن خلدون کی راہ پر چلنا ہمارے کام نہیں آ سکتا۔ ڈاکٹر کنیز فاطمہ کو اعتراض ہے کہ اجتہاد کو مذہبی دائرے میں قید کر دیا گیا ہے۔ جبکہ شمارہ ۹ کے مراسلہ نگار کو اس اعتراض پر یہ اعتراض ہے کہ اجتہاد وہی شخص کر سکتا ہے جو اس کے لیے ضروری مذہبی شرائط پوری کرتا ہو۔ اگر اجتہاد سے مراد یہ طے کرنا ہے کہ کسی معاصر مسئلے پر قرآن و سنت اور فقہ کی رو سے کون سا موقف درست ہے، تو علامہ ندوی اور دیگر علمائے حق کا اس امر پر اصرار قابلِ فہم معلوم ہوتا ہے کہ اجتہاد کرنے والے کو نہ صرف قرآن، سنت، حدیث ، فقہ وغیرہ سے گہری واقفیت ہونی چاہیے بلکہ عربی زبان پر عبور بھی لازمی ہے، اور عقیدے اور ایمان کی سلامتی کی شرط تو ہے ہی۔ یہ کام اگر سرسید، اقبال، علامہ مشرقی، غلام احمد پرویز جیسے افراد کے ہاتھوں انجام پائے گا تو وہ اسلام سے اپنے مطلب کے معنی برآمد کر کے دینِ حق کی شکل مسخ کرنے کے سوا بھلا اور کیا کریں گے۔ اس لیے میری کم مایہ رائے میں مذہبی موقف کی تعبیر یعنی اجتہاد کا کام علمائے حق ہی کے لیے چھوڑ دینا مناسب ہے۔ اس کے برخلاف ایک اور کام ایسا ہے، جسے فیصلہ سازی کا نام دیا جائے تو غیرموزوں نہ ہو گا، جو امت کے اکابرواصاغر بشمول علمائے حق و عوام کالانعام اپنی اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں متواتر کیا ہی کرتے ہیں۔ یہ بات کسی قدر تفصیل کی متقاضی ہے جو میں ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
علامہ ندوی کا قطعی فیصلہ ہے کہ ’’ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابلِ نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہہ نہیں کی جا سکتی... یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے، تاریخ اسلام کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اب دیکھیے حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا، بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انھیں مقرر کر دیا گیا۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول ﷲ نے انھیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا؟...ان کی حیثیت مسلّمہ تھی۔ جس طرح اہلِ عرب اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہہ و مہہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جا سکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ اربابِ حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا؟ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفۂ عوام کی نفی ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ جب ہدایات کے عین مطابق ملوکیت رائج ہو گئی تو مسئلہ درپیش ہوا کہ ایسے اربابِ حل و عقد کہاں سے لائے جائیں جن کی حیثیت مسلمہ اور ناقابلِ مزاحمت ہو۔ یہ ممکن نہ تھا چنانچہ ان حالات میں برادرکُشی کا نسبتاً زیادہ سہل اور موثر طریقہ اختیار کیا گیا۔ اس طریقے کے بےشمار عاملین میں حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمت اﷲ علیہ کا نام بھی آتا ہے جن کی بابت ایمان کی راہ سے ہٹنے کا گمان کیا ہی نہیں جا سکتا۔ خوش قسمتی سے ہر مقتول برادر اور برادرزادے کے سلسلے میں کسی نہ کسی بنیاد پر واجب القتل ہونے کا شرعی جواز، ترجیحاً قتل سے پیشتر ورنہ بعدازاں، علمائے حق کے فتوے سے دستیاب ہو جاتا رہا اور یوں یہ ملوکانہ اجتہاد قیدِ شریعت ہی میں رہا۔ ہر کہہ ومہہ کو ان فیصلوں میں شریک کرنے کا تو ظاہر ہے کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، اور نہ اب تک اٹھتا ہے۔
لیکن اگر حالات کے پیش نظر کوئی ایسا فیصلہ کرنا ناگزیر ہو جائے جس کی تائید شرعی اجتہاد سے نہ ہو سکتی ہو تو بیشتر اہلِ ایمان کا دستور ہے کہ اسلامی تعلیمات کو اپنے عمل کے سانچے میں ڈھالنے کے بجائے خاموشی سے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کر لیتے ہیں اور یوں ایمان سلامت لے جاتے ہیں۔ اس کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔ مثلاً مولوی (ڈپٹی) نذیر احمد کا ایمان (’’امہات الامہ‘‘ کا مصنف ہونے کے باوجود جو اگر آج شائع ہوتی تو شاید دفعہ ۲۹۵ سی کی زد میں آ جاتی) کسی بھی قسم کے شک و شبے سے بالاتر ہے، لیکن انھوں نے سودخوری کو بلاتکلف اختیار کیا، جس کے حرام ہونے پر اجماعِ امت ہے اور جو بقول علامہ ندوی کے بنیوں اور پٹھانوں کا شعار ہے۔ الحمدللہ کہ ۱۹۴۷ء میں ہمیں بنیوں سے نجات نصیب ہوئی۔ تاہم پٹھان سودخور آج بھی پہلے کی طرح سرگرم ہیں۔ علاوہ انفرادی اور خاندانی احتیاج کے تحت لیے جانے والے سودی قرضوں کے، کراچی شہر میں چلنے والی بیشتر بسیں اور تمام منی بسیں انھی کے جذبۂ عمل کے ذریعے سڑکوں پر آئی ہیں، اور ان کی شرح سود بینکوں کی شرح منافع کے مقابلے میں آٹھ سے دس گنا تک ہے۔ اس کاروبار سے وابستہ بیشتر اہلِ ایمان نہ صرف مولوی نذیر احمد کی طرح باریش ہیں بلکہ حاجی بھی ہیں اور انتخابات میں (جن کا ویسے کوئی شرعی جواز نہیں) عموماً مذہبی سیاسی جماعتوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے (یا کوئی اور وجہ ہو گی، وﷲ اعلم بالصواب) کہ رِبا کے موضوع پر ہونے والی تمام بحث میں بینکوں کا ذکر تو خوب ملے گا لیکن ان نیک روحوں کا کہیں تذکرہ نہیں ہو گا۔ ان کی تالیفِ قلوب کے خیال سے نہ کبھی ان کے خلاف کسی لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا اور نہ کوئی احتجاجی مہم چلائی گئی۔ امیرالمومنین جنرل ضیاء الحق شہید رحمت ﷲ علیہ نے بھی شریعت کے نفاذ کی مہم کے دوران بینکوں کو تو ضرور بےسود بینکاری میں مبتلا کیا لیکن ان سودخوروں کے باب میں عفوودرگزر سے کام لیا۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ العزیز کی تصانیف میں قطع اللحیہ (داڑھی مونڈنے)، تصویر کھنچوانے اور کھینچنے، غیرمسلموں کی وضع قطع اختیار کرنے جیسے کاموں کی حرمت صاف صاف بیان ہوئی ہے۔ امت کے اکابر نے، الاماشاء ﷲ، جو طرزِ عمل اختیار کیا وہ اس واضح شرعی فیصلے کی ضد تھا۔ ان میں قائداعظم، علامہ اقبال، قائدملت (بعدازاں شہید ملت) لیاقت علی خاں، جنرل (بعدازاں فیلڈ مارشل) ایوب خاں، امیرالمومنین بننے میں چند گھنٹوں کے فرق سے ناکام رہنے والے جنرل یحییٰ خاں، ذوالفقار علی بھٹو شہید، ان کو رتبۂ شہادت پر فائز کرنے والے امیرالمومنین جنرل ضیاء الحق شہید وغیرہ سے تاحال تمام اولی الامر شامل ہیں۔ دنیائے ادب میں محمد حسن عسکری کے ظہور کے بعد سے حکیم الامت ثانی (یا ممکن ہے حضرت تھانوی نوّر ﷲ مرقدہ‘ حکیم الامت اول ہوں اور اقبال حکیم الامت ثانی) کے عقیدت مندوں کی تعداد اردو کے ادیبوں اور نقادوں میں بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ شمس الرحمٰن فاروقی اور ابوالکلام قاسمی سے لے کر سلیم احمد، جمال پانی پتی، مشفق خواجہ، آصف فرخی اور مبین مرزا تک ان تمام خوش عقیدہ بزرگوں کی عسکری صاحب اور بالواسطہ (یا بلاواسطہ) حضرت تھانوی سے عقیدت میں کیا کلام ہو سکتا ہے۔ البتہ مذکورہ بالا تمام امور میں ان سب نے علمائے حق کے شرعی فیصلے پر حرف گیری سے احتراز کرتے ہوے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ کیا اور اس پر قائم رہے۔ عسکری کا رتبہ چونکہ ان سب سے سوا تھا، اس لیے وہ یہ تک کہنے کا ہیاؤ رکھتے تھے کہ ’’دین میں نے صرف کتابوں سے ہی نہیں بلکہ کیمرے کے لینس سے بھی سیکھا ہے‘‘۔ ایک ایسے فعل سے جس کی حرمت پر اجماع امت ہے، دین سیکھنے کا کام لینا—ﷲ ﷲ! انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ ان کی کتاب ’’وقت کی راگنی‘‘ میں موسیقی جیسے فعلِ حرام سے بھی دین کی بصیرت اخذ کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ اس پر قیاس کیا جائے توغالباً مولوی نذیر احمد بھی کہہ سکتے تھے کہ دین انھوں نے سرکار انگلیشیہ کے سررشتۂ تعلیم کے لیے تحریرکردہ کتابوں ہی سے نہیں بلکہ سودخوری سے بھی سیکھا ہے۔
علامہ شبلی نعمانی کو، کہ شمس العلما ہونے کے ساتھ ساتھ ندوۃ العلما کے قائد بھی تھے، یقیناً معلوم ہو گا کہ فقہ کی رو سے کسی نامحرم عورت کے چہرے اور سراپے پر نظر ڈالنا آنکھوں کا زنا، اس سے بات کرنا زبان کا زنا، اس کی بات سننا کانوں کا زنا (اور غالباً اس سے مراسلت کرنا قلم کا زنا) ہے۔ اس کے باوجود انھوں نے عطیہ فیضی کی صحبتِ ملائم سے حتی الوسع لطف اندوز ہونے کا انتخاب کیا۔ البتہ ایسی کوئی شہادت غالباً نہیں ملتی کہ انھوں نے اپنی حیاتِ معاشقہ کا کوئی شرعی جواز یا عذرِ لنگ تراشنے کی کوشش کی ہو۔ انگریزوں کی ملازمت کرنے اور اپنی اولاد کو انگریزی طرزِتعلیم اور طرزِحیات کی غلامی میں مبتلا کرنے کی بابت فقہی اور روایتی نقطۂ نظر سے حضرت اکبرالٰہ آبادی علیہ الرحمہ سے بڑھ کر کون واقف ہو گا؛ البتہ انھوں نے اس ذکر کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ’’مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں/ فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں‘‘ اور ان امور کے باب میں جو چاہا وہ کیا۔
الناس علیٰ دین ملوکہم۔ عوام الناس بھی عرصۂ دراز سے جدید زندگی سے متعلق خود کو درپیش فیصلوں کے سلسلے میں یہی طرزِ عمل اختیار کیے ہوے ہیں اگرچہ اجتہاد جیسے نازک کام میں ہاتھ ڈالنے کا وہ تصور تک نہیں کر سکتے۔ ’’جنگ‘‘ اخبار کے ہفتہ وار کالم ’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں متعدد بار بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کی ملازمت اور ٹی وی دیکھنے یا اس پر کام کرنے کے قطعاً حرام ہونے کے اعلان کے باوجود ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ بینکوں وغیرہ سے بڑی تعداد میں اجتماعی استعفے دیے گئے ہوں یا لوگوں نے ٹی وی دیکھنا یا اس پر کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ عوام الناس کی تو بات چھوڑیے، خود علمائے حق کو دن کے کسی بھی وقت ٹی وی کے کسی نہ کسی چینل کے اسکرین پر جلوہ افروز دیکھا جا سکتا ہے۔ چونکہ اجتہاد کے لیے درکارشرائط پوری کرنے کا موقع اور وقت عوام کو دستیاب نہیں ہوتا، اس لیے وہ یہ کام علمائے حق کے سپرد کر کے اپنے معاملات کا فیصلہ اپنی محدود عقل کے مطابق خود ہی کر لیتے ہیں۔ مثلاً اس بات پر علمائے حق کا اجماع ہے کہ ضبط تولید اسلام کی رو سے ناجائز ہے۔ اب اگر کسی شخص کو کثرتِ اولاد سے پیدا ہونے والے فوری مسائل کا سامنا ہے تو وہ اجتہاد کے قابل ہونے کے لیے درسِ نظامی میں داخلہ تو لینے سے رہا؛ وہ علمائے حق کا واجب احترام ملحوظ اور اپنا عقیدہ قائم رکھتے ہوے بہبود آبادی کے کسی قریبی مرکز سے رابطہ کر کے مناسب اقدام کر لیتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپریل ۱۹۷۹ء کے اولین ہفتے میں (ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیے جانے کے فوراً بعد) مختلف مکاتبِ فکر کے علمائے حق کا یہ فتویٰ اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ غائبانہ نمازجنازہ کا شریعت میں کوئی تصور نہیں اور یہ قطعی حرام ہے۔ لیکن جو لوگ یہ نماز ادا کرنا چاہتے تھے وہ اس صریح فتوے کے باوجود اپنے کام میں مشغول رہے۔ یہ کام اگست ۱۹۸۸ء کے تیسرے ہفتے میں بھی (جنرل ضیا کے ہوائی حادثے میں ہلاک ہونے کے بعد) مختلف مقامات پر، کہا جاتا ہے کہ مسجد نبوی میں بھی، انجام دیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں علمائے حق کی جانب سے اجتہاد کے عمل کے دوران ایک ہی مسئلے پر ایک سے زیادہ ایسے فیصلوں کی مثالیں مل جاتی ہیں جو ایک دوسرے کی تردید کرتے معلوم ہوتے ہیں، مثلاً لاؤڈاسپیکر کا استعمال، جو پہلے حرام تھا، بعد میں حلال قرار پایا؛ لیکن علمائے حق کی حکمت پر حرف زنی کی عوام الناس کو کیا مجال، البتہ ان میں سے بہت سوں کو اس حسرت کا دبی زبان سے اظہار کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ کاش اس ایک معاملے میں انھوں نے اپنے پہلے فیصلے پر استقرار کو موزوں سمجھا ہوتا۔
آپ کی فرقوں اور مسلکوں کے بارے میں صلح کل کی پالیسی علمائے حق کے اصولی موقف کو نظرانداز کرتی معلوم ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں سرسید کی بات بھی بڑی دلچسپ معلوم ہوئی۔ کہتے ہیں کہ فرقوں کی کثرت اور ایک فرقے کی طرف سے دوسرے کی تکفیر سے اسلام کے نور پر کچھ فرق نہیں پڑتا اور وہ بدستور بڑھتا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی بھی مسلک یا فقہ سے تعلق رکھنے والے علمائے حق قرآن، سنت اور فقہ کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ان کا مخالف فرقہ اپنے عقائد یا اعمال یا رسوم کی بنیاد پر کافر یا مشرک ہے تو آپ ان سے آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے اور باطل کو حق (یا تقریباً حق) قرار دینے کی توقع کیونکر کر سکتے ہیں؟ دیوبندی فقہ کی رو سے غالباً بریلوی حضرات مشرک اوراہلِ حدیث، شیعہ اور اسمٰعیلی عقائد رکھنے والے کافر ہیں۔ (دیگر فرقوں کے علمائے حق کی نظر میں شاید وہ خود دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔) تاہم علمائے حق کے ہر خطیبانہ بیان میں پاکستان کے چودہ (یا شاید پندرہ) کروڑمسلمان عوام کا ذکرموجود ہوتا ہے اور وہ ان (اور دیگر) خارج از اسلام فرقوں کی آبادی کو مسلمانوں کی کل تعداد میں سے منہا کرنا ہمیشہ بھول جاتے ہیں۔ ان کی غیرتِ ایمانی غالباً تمام مخالف فرقوں سے وہی سلوک کرنے کا تقاضا کرتی ہو گی جو ہمارے ملک میں قادیانیوں سے روا رکھا جاتا ہے لیکن ان کی عددی یا مادّی قوت کے باعث (یا کسی اور سبب سے، وﷲ اعلم بالصواب) ایسا کرنے سے محترز رہتے ہیں۔ (قادیانیوں کو ان تمام فرقوں کے مقابلے میں وہی یگانہ حیثیت حاصل ہے جو علامہ اقبال، سرسید، شبلی، وغیرہ کے مقابلے میں یگانہ کو حاصل ہوئی تھی۔) یہی طرزعمل اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب شیعوں کو کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ علمائے حق ایران، عراق اور شیعہ اکثریت کے دیگر ملکوں کو مسلم ملکوں ہی کی فہرست میں جگہ دیتے ہیں۔ علمائے حق کے طرزعمل کی حکمت تک ہم جیسے گناہ گار عوام الناس کی محدود عقل کہاں بار پا سکتی ہے۔ لیکن یہ بات تسلیم کرنی ہی پڑتی ہے کہ تکفیر باہمی کے اس اجتہادی عمل سے کثیرمسلکی معاشرے کے لیے پرامن بقائے باہمی کے اصول برآمد کرنا ایک دشوار کام ہے۔ البتہ اس کے لیے ضروری امر یہ ہے کہ اجتہاد اور فیصلہ سازی کے دائروں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے، ورنہ وہی صورت حال پیدا ہو گی جو بعدازانقلاب ایران اور طالبان کے افغانستان میں رونما ہوئی۔
علامہ ندوی نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اقبال مرحوم علمائے حق کی قوت سے خائف رہتے تھے۔ یہ امر جس طرح حیاتِ عارضی میں ان کی سلامتی کی ضمانت بنا اسی طرح امید ہے کہ حیاتِ ابدی میں ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ ہمیں بھی اپنے ایمان کی فکر کرتے ہوے اس قوت سے حتی الوسع ڈرتے رہنا چاہیے اور استغفار کا ورد جاری رکھنا چاہیے۔ اقبال کی کفروالحاد کی روایت کے امین فیض کا شعر ہے:
خالی ہیں گرچہ مسندومنبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا


ضمیمہ
خطبات اقبال پر علامہ سلیمان ندوی کا تبصرہ

سائنس اور فلسفے کی ضرورت:
]اقبال مرحوم[ امام غزالی سے سخت نالاں تھے اور سمجھتے تھے کہ غزالی اور قدیم متکلمین اور فقہا نے فلسفے کی مذمت کر کے مسلمانوں پر ترقی، ارتقا اور سائنسی انقلاب کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اگر یہ فقہا اور خصوصاً امام غزالی پیدا نہ ہوتے اور عالم اسلام میں فلسفے کی موت واقع نہ ہوتی تو مسلمانوں پر زوال نہ آتا۔ لیکن ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ تھا کہ رسول اﷲ اور صحابہ کرام کے پاس تو کوئی فلسفہ نہ تھا لیکن قیصروکسریٰ کیسے فتح ہو گئے تھے؟...وہ مغرب کی تمام تر ترقی کو اسلام ہی کا اثاثہ سمجھتے تھے جو بہت بڑی غلط فہمی تھی اور رفتہ رفتہ یہ غلط فہمی دور ہو گئی تھی۔ ان سے باربار یہ پوچھتا تھا کہ اگر قرآن نے تفکرون تدبرون تعلقون کی دعوت دے کر تجربیت، حواس کے استعمال کے ذریعے مغرب کی اس ترقی کو ممکن بنایا اور رسول ﷲ کی آمد سے مغرب مغرب ہو گیا اور اسلام ہی نے تجربیت، عقلیت، ترقی، ارتقا کا درس دیا اور قرآن و سنت و خلافت راشدہ کا عہد اسی لیے زریں دور تھا ]تو[ خود عہداسلامی میں سائنس کا وہ ارتقا کیوں نہ ہوا جو مغرب میں ممکن ہوا؟ کیا کسی پیغمبر نے ایجادات سے انقلاب برپا کیا یا دعوت سے؟... اگر سائنس ترقی کی اصل اساس ہے تو انبیا کم از کم سائنس داں تو ہوتے اور انسانیت کے لیے کچھ ایجادات تو کرتے، لیکن تاریخ اس تصور سے خالی ہے۔...جب مسلمانوں کے سامنے عاد ثمود اہرام مصر موجود تھے تو مسلمان قرآنی تجربیت کے ذریعے ان جیسی عمارتیں چودہ صدیوں میں کیوں نہ بنا سکے؟ یعنی ان میں نقل کرنے کی صلاحیت بھی نہ تھی؟ اس طرح پوری امت ایک ناکام امت ٹھہرتی ہے۔ سائنسی ترقی کے اس فلسفے کے نتیجے میں رسول ﷲ پر زد پڑتی ہے کہ نعوذباللہ اس پیغمبر کے زمانے میں تو کچھ نہ تھا۔ رسول ﷲ کا گھر، مسجد نبوی، مدینہ النبی کے گھر عاد ثمود اہرام مصر کا عشرعشیربھی نہ تھے۔ لہٰذا عہدرسالت سائنسی نقطۂ نظر سے دنیا کا ناکام ترین معاشرہ تھا جو ماضی کے علوم و فنون کا احیا کرنے سے قاصر رہا اور چٹائی، پتوں، ٹاٹ، جھونپڑی کی ثقافت سے اوپر نہ اٹھ سکا۔ کیا کسی معاشرے کی کامیابی اور ناکامی کا پیمانہ صرف مادی پیمانے سائنسی ترقی اور عروج ہے؟ اقبال مرحوم سے میں نے یہ بھی پوچھا کہ اگر مغرب کی ترقی اسلام اور قرآن سے ممکن ہوئی تو روم، ایران، مصر، چین، یونان، موئن جودڑو اور ہزاروں مدفون تہذیبوں کی ترقیوں کو آپ کس پیغمبر اور کس کتاب سے منسوب کریں گے؟ اقبال مرحوم کے پاس ان سوالوں کے جواب میں گہری خاموشی تھی۔ (211-2)

سرسید کا اجتہاد اور مولوی نذیر احمد کا تبصرہ:
سرسید اجتہاد کو اصلاحِ مذہب کا متبادل ومترادف گردانتے تھے۔ اجتہاد سے ان کی مراد دینی اصطلاح نہیں بلکہ الحاد تھا، یعنی مغرب کے راستے میں دین کا جو حکم رکاوٹ بنے اس کی تاویل کر کے بدل دیا جائے۔ اسے دین سے خارج کر دو۔ بےچارے نہ انگریزی جانتے تھے نہ علومِ اسلام پر عبور رکھتے تھے۔ قرآن کو کلامِ رسول ﷲ مانتے تھے حالانکہ کفار نے بھی اسے کلامِ خداوندی مانا ہے۔ یہ کفر کی حمایت میں کفر سے بھی بڑھ گئے تھے اور پیرویِ مغربی کو عام کرنے میں تقلید کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ (105) لندن کی خادمہ انھیں ہندوستان کے اعلیٰ سے اعلیٰ خاندان کی بیٹی سے بہتر نظر آتی ہے۔ ایسے لوگ اجتہاد کریں گے تو کیا کریں گے۔ مولوی نذیر احمد نے اسی لیے سرسید کی تفسیر پر جو تبصرہ کیا ہے ٹھیک تو کیا ہے۔ تبصرہ بہت بےہودہ ہے، ثقاہت کے خلاف، لیکن مولوی صاحب دہلوی تھے اور محاورے روزمرہ پر عقائد، اکرام، تعظیم سب قربان کر دیتے تھے۔ اس کا ثبوت ”امّہات الامّہ“ ہے۔ قرآن کے ترجمے میں زبان کس قدر کھردری ہے۔ کھڑی بولی پڑی بولی سب پر عبور رکھتے تھے۔ یہی مزاج سود کو حلال ٹھہراتا ہے۔ قرض سود پر دیتے تھے۔ پیسہ گن گن کر رکھتے تھے۔ مولوی بھی کہلاتے تھے۔ ان کی وجہ سے بےچارے مولوی بہت بدنام ہوئے۔ پہلے صرف بنیے یا پٹھان سودخوری کے لیے مشہور تھے، ڈپٹی صاحب نے مولوی پر بھی سودخوری کا الزام ثابت کر دیا۔ لیکن ”ابن الوقت“ میں جو کچھ لکھا ہے لفظ بہ لفظ سچ لکھا ہے۔ (110)
یورپ کے اصولوں کی مدد سے اجتہاد:
یہ دلچسپ بات ہے کہ تمام جدیدیت پسند، کرامت علی سے مشرقی اور اقبال مرحوم تک، سب اسلام کی اصلاح کے درپے ہیں، ایک بھی ایسا نہیں جو مغرب کی اصلاح چاہتا ہو...سب اسلام کو بدلنا چاہتے ہیں اور اس کو بدلنے کی اہلیت بھی نہیں رکھتے۔ ان میں سے کچھ عربی نہیں جانتے، کچھ اسلام کو نہیں جانتے، کچھ مغرب کو نہیں جانتے...مسلمانوں کا اصل انحطاط اور ذلت کی آخری حد یہی ہے کہ انھیں اپنے عروج کے لیے، اپنے آپ کو سنبھالا دینے کے لیے سہارا کہاں سے ملے گا؟ ﷲ سے، اس کے رسول سے، اپنے نظریۂ حیات سے نہیں، بلکہ یورپ کے اصولوں سے، تجربیت سے، سائنس سے، عقلیت سے، معتزلہ سے، نطشے، برگساں کے سپرمین اور وجدان سے۔ یہ پستی کی انتہا ہے۔ اسی لیے علما نے خطبات اقبال مرحوم کی شدید مخالفت کی، کفر کے فتوے بھی دیے گئے...(۳۶) یہ اقبال مرحوم کی سب سے بڑی غلطی ہے اور ناقابل معافی غلطی کہ مغرب کی سائنس اور فلسفے کو منہاج حقیقی بنا کر دین کی تعلیمات کو اس پیمانے پر جانچا جائے نہ کہ دین کو اصل، حقیقی اور درست منہاج سمجھ کر مغرب کے فکروسائنس کو اس پیمانے سے جانچا جائے۔...خطبات میں اقبال مرحوم نے جہاں جہاں مغربی فکروفلسفے کو قرآنی آیات سے ثابت کیا ہے یہ تمام استدلال سرے سے غلط ہے۔ اقبال مرحوم علم تفسیر سے ناواقف تھے اور انھوں نے قرآن کے انگریزی تراجم کے ذریعے قرآن کو سمجھا اور قرآن کی تشریح خالص عقل کی روشنی میں کی، لہٰذا جہاں جہاں بھی قرآنی آیات کو وہ اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں وہاں وہاں وہ ٹھوکریں کھاتے ہیں اور یہ ٹھوکریں تحریفات سے بھی بڑھ کر ہیں۔(۵۹)
کائنات میں تحرک اور تخلیقیت:
اقبال مرحوم نے ... کائنات اور اشیا میں ابدی سکون کی نفی کی اور یہ نفی اس حد تک وسیع ہوئی کہ انھیں کائنات مسلسل تخلیق کا عمل نظر آئی حتیٰ کہ خدا بھی تخلیق ہونے لگا...خودی کی براقی و دراکی اور تخلیقیت کی شان نہ انبیا کو معلوم تھی نہ صحائفِ آسمانی میں ان کا ذکر ہے، نہ سلف کے علم میں تھی نہ خلف کو اس کا پتہ ہے...اب سائنس کے مفروضات کی بنیاد پر ذات خداوندی اور اس کی برپاکردہ کائنات کے بارے میں اس آزادانہ تبصرے کی جرأت اسلامی تاریخ میں اقبال مرحوم کے حصے میں آئی۔ (۴۶) وہ کائنات کو خدا کا تخلیقی عمل سمجھتے ہیں جو ہنوز ناتمام ہے، گویا خدا تخلیقیت میں مصروف عمل ہے۔ ...بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ انسان کا درجہ اس قدر بڑھاتے ہیں اور خدا کا درجہ اس قدر گھٹا دیتے ہیں کہ تصور اس کے ادراک سے کانپتا ہے...مغربی فلسفے نے اقبال مرحوم کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ انھوں نے خطبات میں کہیں لکھا ہے کہ ﷲ نے اپنی آزادی، طاقت حیات قدرت میں انسان کو شریک کر لیا ہے۔ (۸۹) خدا کا نقطۂ نظر تخلیقیت ہے یا نہیں یہ اقبال مرحوم کو کیسے معلوم ہوا؟ وہ خدا کے اس نقطۂ نظر تک کیسے پہنچے؟ یہ تو نبوت کا دعویٰ ہے۔ (۰۰۱) تقلید کے جمود سے نکلنے کے لیے اقبال مرحوم نے حرکت کا ایک ایسا تصور اختیار کر لیا جو صحفِ سماوی کی تاریخ میں اور مذہبی تہذیبوں کی تاریخ میں خالصتاً اجنبی تصور ہے۔ اس تصور سے یہ تصور بھی نکلتا ہے کہ تقدیر کا کوئی اور کاتب نہیں ہے، انسان خود کاتب تقدیر ہے جس کی دسترس سے لوح محفوظ بھی محفوظ نہیں۔ (۱۰۱) اقبال مرحوم انکار کرتے ہیں کہ خدا کائنات سے باہر نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں جب کائنات ہماری دسترس میں آتی جا رہی ہے تو ذات خداوندی بھی دسترس سے باہر نہ رہ سکے گی...یہ نقطۂ نظر بہت بڑی جسارت ہے۔ اس قسم کی جسارتیں ان کے یہاں عام ہیں...(۶۹)

مغربی فلسفے سے ناواقفیت:
ماڈرن ازم کے آغاز میں مغرب کا دعویٰ تھا کہ حقیقت پہچاننے کے لیے انسان خودکفیل ہے۔ اسے وہ صلاحیتیں حاصل ہیں جس سے وہ حقیقتِ مطلقہ (absolute reality) تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال مرحوم اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ کانٹ اس دعوے کی تردید کرتا ہے جو مغرب کا سب سے بڑا فلسفی اور ماڈرن ازم کا بنیادی فلسفی ہے۔ کیا اقبال مرحوم کانٹ سے بڑے فلسفی تھے اور مغرب کو مغرب سے بہتر جانتے تھے یا مغربی فلسفے پر کانٹ سے زیادہ عبور رکھتے تھے؟ (۱۰۱)...

اجتہاد کی اہلیت کا فقدان:
ترکی کے کمال مصطفیٰ اتاترک اور ترکی کی پارلیمنٹ جیسے کافرانہ ملحدانہ اداروں سے اجتہاد کی توقع کرنا اقبال مرحوم کی فاش غلطی تھی۔ اقبال مرحوم نے نثر اور شاعری کے اشارات میں ان مجتہدینِ عصر پر لطیف طنز کیا ہے جو علومِ نقلیہ میں رسوخ اور رسوخ فی الدین کے بغیر اجتہاد کے علمبردار بن گئے ہیں۔ لیکن ان کی مذمت کرتے ہوئے اقبال مرحوم خود اپنے مقام کا جائزہ نہیں لیتے۔ کیا وہ ان مباحث کو برپا کرنے کے اہل تھے؟ عربی زبان سے واقفیت کے بغیر اور علم اسلامی میں رسوخ کے بغیر ایک ایسے منصب پر فائز ہونے کی کوشش جہاں سے وہ ملتِ اسلامیہ کی تشکیلِ نو کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں اور اجتہاد کا طریقۂ کار بھی خود طے کر لیتے ہیں...اجتہاد کرنے کے لیے کم از کم مطلوبہ قابلیت تو پیدا کیجیے۔ ...اقبال مرحوم یہ نکتہ فراموش کرتے ہیں کہ...اجتہاد کے دور میں ہی تاتاریوں نے مسلمانوں پر غلبہ کیسے حاصل کر لیا...پھر یہی غلبہ اچانک ختم ہو جاتا ہے اور مسلمان دوبارہ غالب آ جاتے ہیں۔ یہ تبدیلی کس اجتہادی قوت کے ذریعے پیدا ہوئی؟...اگر مسلمان تاتاری غلبے سے اجتہاد کے بغیر نکل سکتے ہیں تو مغربی تہذیب کے غلبے سے نکلنے کے لیے صرف اور صرف اجتہاد پر زور دینے کی کیا ضرورت ہے؟...قرآن کی آیتوں اور حدیثوں کو حرکت و ترقی کا مظہر قرار دینا بڑی عجیب بات ہے۔ یہ فکر تاریخ اسلام کے لیے اجنبی فکرہے۔...اقبال مرحوم وہابی تاریخ کے غلبہ کو اجتہاد کا غلبہ اور امت کے لیے نیک شگون تصور کرتے ہیں۔ یہ رویہ دراصل ان کی روحانیت کا نتیجہ ہے جو ملتِ اسلامیہ کا عروج چاہتی ہے خواہ یہ عروج جبراً ہو، جبکہ عروج جبر سے کیسے آ سکتا ہے۔ (۵۶-۴۶)

اجتہاد بذریعہ پارلیمنٹ:
قدیم علما نے اجتہاد کے لیے جو شرائط طے کیں وہ اقبال مرحوم کو عصرحاضر کے کسی فرد میں نظر نہ ائیں تو انھوں نے اجتماعی اجتہاد اسمبلی کے ذریعے کرنے کا اجتہاد فرمایا۔ جب شرائط اجتہاد فرد میں نہیں پائی گئیں تو اسمبلی میں کیسے اکٹھی ہو سکتی ہیں؟ سو صفر اکٹھے ہو کر ایک کیسے بن سکتے ہیں؟ ... اسمبلی کے انتخابات کی بنیاد مساوات کے نظریے پر ہے، تمام انسان برابر ہیں...اب علامہ اقبال مرحوم اور ایک بقّال کا ووٹ برابر ہے اور دونوں یکساں طور پر جمہوری عمل کے ذریعے اسمبلی کے ممبر بن سکتے ہیں۔ اب بقّال، حمّال، حجّام اور موچی اجتہاد کریں گے۔ اقبال مرحوم کا یہ نقطۂ نظر ان کی سطحیت کو واضح کرتا ہے۔ اس سطحیت کا احساس انھیں آہستہ آہستہ ہوتا گیا کیونکہ شروع میں خطبات پر علی گڑھ میں بہت داد ملی اور ہندوستان کے پڑھے لکھے جو مغرب سے مرعوب تھے انھیں اقبال مرحوم کے ذریعے اسلام کی فصیل میں نقب لگانے کا زبردست طریقہ مل گیا تھا۔ لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو حقیقت بھی کھل گئی۔ بعد میں اقبال مرحوم ہندوستان کے ان پڑھے لکھوں سے بہت متنفر ہوئے اور ان سے مکمل مایوس ہو گئے، بلکہ کہتے تھے کہ اگر میں آمر ہوتا تو ان کو ہلاک کر دیتا۔ (۸۷)
تعدد ازواج، طلاق اور عورتوں کے حقوق:
اقبال مرحوم مغرب کےFeminism سے شدید متاثر تھے۔ ایک مضمون میں انھوں نے لکھا تھا کہ تعدد ازواج اس عہد کے سیاسی اقتصادی ضرورتوں سے مشروط تھا اور فی زمانہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ”جو علما تعدد ازواج کی اجازت دیتے ہیں وہ امرائے قوم کو زنا کا شرعی بہانہ مہیا کرتے ہیں۔“ یہ جسارت مغربی فکروفلسفہ کا نتیجہ اور علوم اسلامی سے عدم واقفیت کے باعث تھی۔ لیکن آخر زمانہ میں اقبال مرحوم نے مغرب کی فحاشی عریانی بےحیائی دیکھی تو مجھے لکھا تھا کہ اسلام کے تعدد ازوج کے اصول کی اصل حقیقت تو مجھ پر اب واضح ہوئی ہے۔ اگر شارع علیہ السلام ہوتا تو چار کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ عقل اور اجتہاد جب اصول دین بن جائیں تو اسی قسم کی افراط و تفریط لازمی ہے۔ پہلے دوسری کے بھی قائل نہ تھے، اب پانچویں کے بھی قائل ہو گئے۔ اسی لیے تقلید اجتہاد سے بہتر ہے اور اگر اجتہاد کرنا ہے تو ان تمام شرائط کا ہونا لازمی ہے جو علما نے بیان کی ہیں۔ بعد میں اقبال مرحوم نے عورتوں کے حدودکار، حجاب، تقسیم کار پر وہی موقف اختیار کر لیا تھا جس پر اجماع امت ہے۔(۹۷) فقہ اسلامی میں طلاق کے مسئلے کی تاریخی تحقیق سے بھی اقبال مرحوم گہری واقفیت نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے وکالت کے پیشے میں جب طلاق کے مقدمات کثرت سے دیکھے تو اس ضمن میں فقہی احکامات سے متنفر ہو گئے۔ احکام کی علت اور روح کو سمجھے بغیر محض چند واقعات و حادثات سے متنفر ہو جانا دین کا مزاج نہیں ہے۔ عورت طلاق لیتی ہے، مرد طلاق دیتا ہے، یہ فقہ کا اصول نہیں قرآن کا حکم ہے۔(۹۷) ایک بار انھوں نے مجھ سے شکوہ کیا تھا کہ ہندوستانی معاشرے میں مسلمان لڑکیوں کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی اجازت نہیں ہے، خصوصاً حنفی فقہ ولی کی شرط عائد کرتی ہے، یہ قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ میں نے سوال کیا کہ اس سوال پر تو ہم بعد میں بات کریں گے کہ ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ولی کے بغیر نکاح کی اجازت ہونی چاہیے یا نہیں، پہلا سوال یہ ہے کہ آیا ہمارے معاشرے میں لڑکوں کو اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ وہ چپ ہو گئے۔ میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ آپ کی شادیاں کیا آپ کی مرضی سے ہوئیں؟ وہ غمگین ہو گئے۔ میں نے عرض کیا کہ جب اس عہد کا اتنا بڑا آدمی اپنی پسند سے شادی تو کیا طلاق بھی نہیں دے سکتا تو یہ کہنا کہ لڑکیوں کو پسند کی شادی کی اجازت نہ دینا ظلم ہے، خلط مبحث ہے۔ (۹۷)
اقبال مرحوم کو پنجاب میں ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کے مقدمات کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ بجائے اس کے کہ وہ پنجاب کی مقامی معاشرت، عادت، رسوم و رواج پر غور کرتے تاکہ اتنے بڑے پیمانے پر تنسیخ نکاح کے مقدمات کی توجیہہ کر سکتے، انھوں نے اسلامی فقہ اور حنفی فقہ میں خامیوں کی تلاش شروع کر دی۔ وہ جزئیات کو لے کر کلیات اخذ کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔ اسے ہم جدید اصطلاح میں سائنٹفک ذہن کہہ سکتے ہیں۔ اس سائنٹفک ذہن کا اطلاق سائنس پر کیا جا سکتا ہے، فقہ میں اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ عالم اسلام کی آبادی تقریباً پچاس کروڑ ہے۔ شادی شدہ عورتوں کی تعداد بھی کم از کم دس کروڑ ہو گی۔ اگر دس کروڑ عورتوں میں سے پنجاب کی دو سو عورتوں نے ارتداد کے ذریعے تنسیخ نکاح کا راستہ دیکھا تو اس سے فقہ اسلامی کی کمزوری نہیں بلکہ پنجابی معاشرے کی خامیاں سامنے آتی ہیں جو مسلمان تو ہو گئے لیکن عہد جاہلیت کے رسوم و رواج کے دائرے سے نہیں نکل سکے۔(۰۸)
جمہوریت و ملوکیت:
مغرب سے مغلوبیت نے اقبال مرحوم کو یہ باطل خیال پیش کرنے پر مجبور کیا کہ اسلامی قانون کی روح جمہوری ہے۔ جمہور اور اجماع کی اصطلاحات سے یہ نتیجہ اخذ کر بیٹھے کہ نئے مسائل پیش آنے پر جمہوری طریقے سے لوگوں کی رائے لے کر (ریفرنڈم وغیرہ) قانون وضع کر لیا جائے گا اور غالباً اسمبلی ان کی نظر میں اجماع اور جمہور کا متبادل تھا۔ فقہ اسلامی میں جمہور سے کیا عوام الناس مراد ہیں؟ اقبال مرحوم اس اصول سے تو آگاہ ہوں گے لیکن اس کی تفہیم انھوں نے مغربی منہاج میں کی تو یہ گمراہی خودبخود پیدا ہو گئی، اور اقبال مرحوم کے یہاں ایسی بےشمار گمراہیاں ملیں گی۔...جمہوریت ایک خالص مغربی اصطلاح ہے لہٰذا اسے اسلامی تاریخ اور فقہ میں ڈھونڈنا درست نہیں ہے۔ جمہوری اداروں کو اسلامی تاریخ میں تلاش کرنا اسلام کی تاریخ سے ناواقفیت کا ثبوت ہے۔ قرآن کریم میں ملوکیت کی مذمت اور جمہوریت کی مدحت کہاں ہے...ملوکیت قرآن سے ثابت ہے، اسے قابل نفرت قرار دینے کی شرعی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔...آزادی اور مساوات کو اسلام میں ڈھونڈنا اسلام سے ناواقفیت ہے۔...اسلام اور آزادی دو متضاد نظریات ہیں۔ (۲۸) جمہوریت اور جمہوری عمل کا اسلام سے کیا تعلق اورخلافت اسلامی سے کیا تعلق؟...اسلامی جمہوریت ایک بےمعنی اصطلاح ہے۔ شورائیت کہہ سکتے ہیں۔ قرآن بتاتا ہے کہ فرعون کی بھی شوریٰ تھی اور ملکہ سبا کی بھی شوریٰ تھی... تو شورائیت نظام استبداد اور آمریت میں بھی رہتی ہے، ملوکیت میں بھی ہوتی ہے اور خلافت میں بھی ملتی ہے۔...یہ کہنا کہ اسلام اور خلافت کا نظام خالصتاً جمہوری ہے، تاریخ اسلام کے لیے ایک اجنبی تصور ہے۔ اب دیکھیے حضرت ابوبکر کی خلافت کا اعلان پہلے کیا گیا، بیعت بعد میں ہوئی۔ خلیفہ تو انھیں مقرر کر دیا گیا۔ اس تقرری کا فیصلہ عوام نے نہیں ارباب حل و عقد نے کیا۔ یہ کون لوگ تھے؟ کیا یہ منتخب ہوئے تھے؟ کیا رسول ﷲ نے انھیں خلافت کے فیصلے کا اختیار دیا تھا؟...ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ جس طرح اہل عرب اپنی اولاد کو پہچانتے تھے اسی طرح ان لوگوں کی اہمیت، حیثیت سے بخوبی واقف تھے، لہٰذا کوئی مزاحمت نہ ہوئی۔ ہر کہہ و مہہ کو خلافت کے فیصلے میں نہ شریک کیا جا سکتا تھا نہ شریک کرنے کی ضرورت تھی۔ اتنے اہم منصب کا فیصلہ ارباب حل و عقد کریں گے یا ہر ایک سے پوچھا جائے گا؟ قرآن کریم اس معاملے میں واضح ہدایات دیتا ہے جس سے جمہوریت کے فلسفۂ عوام کی نفی ہوتی ہے۔...قرآن نے طالوت کو ملک کہا، ذوالقرنین کو ملک کہا، کہیں ملوکیت کی مذمت نہ کی...لہٰذا یہ کہنا کہ قرآن، اسلام ملوکیت کے خلاف ہے اور جمہوریت کے حق میں ہے، باطل خیال ہے۔(۱-۰۹)
مکاتبِ فکر اور اجماع:
اقبال مرحوم صاف لفظوں میں کہتے تھے کہ صرف مکاتب فکر کے اجماع کے تصور کو ختم کر کے اس تصور کو وسیع کر دیا جائے۔ صرف اقبال کے کہنے سے مکاتب فکر ختم نہیں ہو سکتے۔ اس امت میں بےشمار مکاتب فکر تھے، سب ختم ہو گئے، صرف چار رہ گئے۔ غیرفطری طریقے سے جو مکاتب ابھرے وہ فطری طریقے سے ختم ہو گئے۔ خطبات لکھنے اور تقریر کرنے سے نہ کوئی مکتب فکر وجود میں آتا ہے نہ ختم ہوتا ہے۔(۲۹) اصلاً وہ فقہ اسلامی کے قیمتی ذخیرے سے ناواقف تھے، اس پر ان کی گہری نظر نہ تھی۔ چند اہم مشہور کتابیں انھوں نے مترجم کی مدد سے پڑھ ڈالیں اور اس کمزور مطالعے کے بل پر لامحدود دعوے کر دیے۔ اس میں ان کا اخلاص موجود ہے لیکن اخلاص علم کا متبادل نہیں ہو سکتا۔...فقہ احناف پر اقبال مرحوم کے تبصرے اس قدر سطحی ہیں کہ انھیں پڑھ کر دکھ ہوتا ہے۔ اقبال مرحوم کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ مختلف متحارب مکاتب فکر اور گروہوں کے لوگوں سے خط و کتابت کرتے تھے اور اس خط و کتابت سے حاصل شدہ معلومات کے تبادلے سے کچھ مفروضات قائم کر کے اپنی ذہانت سے بعض غیرمعمولی نتائج اخذ کر لیتے تھے۔ ان میں وہ علمی اہلیت نہیں تھی کہ ان نکات کی تائید و تصدیق متعلقہ کتب سے براہ راست کر سکتے۔ وہ علم کے بجائے تعقلی وجدان کے سہارے دین پر نقد کرتے تھے۔ لہٰذا ہر محقق و مفکر نے اپنے حساب سے اخذشدہ ادھوری، جانبدارانہ معلومات انھیں مہیا کر دیں۔ انہی معلومات پر انھوں نے اسلامی علوم پر نقد فرمایا ہے۔ احمد دین امرتسری کے مکتب فکر سے بھی ان کے مراسم اور خط و کتابت تھی...لہٰذا ممکن ہے کہ حنفیوں کے خلاف یہ جارحیت وہاں سے ملی ہو کیونکہ احمد دین امرتسری صاحب اہل حدیث تھے۔ (۴-۳۸) اقبال مرحوم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حدیث سے استدلال کا طریقہ استخراجی ہے یا استقرائی...سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ حنفی مکتب فکر پر جمود، تقلید، ٹھہراؤ، یونانی منطق سے مرعوبیت کے بے بنیاد الزامات عائد کرنے کے باوجود خطبات میں تسلیم کر لیتے ہیں کہ دوسرے مکاتب کے مقابلے میں حنفی مکتب تخلیقی اکتساب کی بہت زیادہ قوت رکھتا ہے۔ اگر حنفی جامد مقلد اور یونانی منطقی تھے تو پھر تخلیق کا سوتا ان کے مکتب فکر سے کیسے پھوٹ گیا؟ اقبال مرحوم کے یہاں اس طرح کے تضادات بےشمار ہیں کیونکہ بیشتر آرا ان کے مطالعے کا حاصل نہیں ہیں بلکہ ادھر ادھر سے استفادہ کر کے اپنے نام سے دین کی تشکیل کا دعویٰ کر دیا گیا ہے جو تضادات سے پر ہے۔اسی لیے یہ دعویٰ کبھی قبولیت حاصل نہ کر سکا۔(۴۸)
اجماع کو لادینی سیاسی نظام کے جمہوری ادارے پارلیمنٹ کا متبادل سمجھنا اقبال مرحوم کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آج وہ زندہ ہوتے تو اس خیال سے رجوع فرماتے۔(۳۹) وہ ترکوں کے الحاد کو اجتہاد کا ہم معنی سمجھتے تھے اور اسے بڑا کارنامہ قرار دیتے تھے۔ اس موضوع پر ان سے بہت تندوتلخ تبادلۂ خیالات بھی ہوا اور آخر میں وہ اس سے رجوع کر چکے تھے لیکن اس رجوع کا اظہار تحریری طور پر کرنے کی مہلت نہ ملی۔(۰۱۱)
دینی علوم سے کامل بےخبری اور اسلامی فقہ کے عظیم الشان ذخیرے اور علم التفسیر اور علم الحدیث کے اصولوں سے عدم واقفیت کے باعث اقبال مرحوم کے یہاں گمراہیوں کا ایک طویل سلسلہ در آتا ہے۔ ”معارف“ میں عموماً ان گمراہیوں پر سکوت کا ایک سبب یہ تھا کہ اقبال مرحوم کی ذات سے اور ان کے شاعرانہ کمالات سے ملت کو جو فائدہ پہنچ رہا ہے اس میں کوئی رکاوٹ نہ پیدا ہو۔ مولانا ماجد [دریابادی] تو اس معاملہ میں بہت غیرت مند تھے اور چاہتے تھے کہ اقبال مرحوم کے کفر کے خلاف جو کچھ لاوا ان کے دل میں ہے کتابی صورت میں تحریر کر دیں لیکن ان کو قائل کرنا پڑا کہ صبر سے کام لیں۔ ...ماجد صاحب نے ان کے الحادوکفر کو دلائل سے ثابت کرتے ہوئے انھیں متنبہ کیا تھا کہ وہ اس دریا کو پایاب نہ کریں۔...مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ کسی قاری نے ان سے استفسار کیا تھا کہ کیا خطبات کا ترجمہ شائع ہو رہا ہے، اب کیا ہو گا۔ تو ماجد صاحب نے تیکھے انداز میں ”صدق“ میں جواب دیا تھا کہ اقبال مرحوم، سرسید جب یورپ کے سامنے اسلام کو پیش کرتے ہیں تو ڈرتے رہتے ہیں کہ کوئی بات بھی زبان سے ایسی نہ نکل جائے جو یورپ کو ناگوار ہو۔ خطبات اگر ترجمہ ہو گئے تب بھی اس کے فروغ کا دائرہ بہت محدود رہے گا اور یہ فتنہ کبھی پھیل نہ سکے گا۔ مولانا دریابادی کا یہ اعتماد کتنا درست تھا؟ خطبات کو میں فتنہ اس لیے نہیں کہہ سکتا کہ اقبال مرحوم نے ان مباحث سے رجوع کر لیا تھا اور نظرثانی کر رہے تھے، انھیں اس کا موقع نہ ملا۔ (۵۸) ماجد صاحب کی تنقید کے بعد اقبال مرحوم نے خطبات کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔ انھیں احساس ہو گیا کہ یہ مباحث اتنے سادہ نہیں کہ انھیں امہات کتب کے تراجم کی سماعت کے ذریعے طے کر دیا جائے۔ غالباً کسی بیان میں اقبال مرحوم نے یہ کہا ہے کہ میں Islam as I understand it کے نام سے کتاب لکھ رہا ہوں...میرے خیال میں خطبات اقبال مرحوم کا نام اگر تبدیل کر دیا جائے بلکہ خطبات اقبال مرحوم کا بہترین نام میری نظر میں Islam as I understand it ہونا چاہیے کیونکہ خطبات میں صرف وہی کچھ پیش کیا گیا ہے جو اقبال مرحوم سمجھتے تھے۔ خود اسلام کو علوم اسلامی، علماءاسلام اور تعامل امت کے ذریعے سمجھنے کی روایت اقبال مرحوم نے ترک کر دی لہٰذا قدم قدم پر ٹھوکر کھائی...اقبال مرحوم کو قلق تھا کہ علماء نے ان کے خطبات کا خیرمقدم نہیں کیا۔ وہ علماء کی طاقت سے بخوبی واقف تھے اور تن تنہا ان سے مقابلہ کی سکت نہ پاتے تھے۔ انھیں ملال تھا کہ سرسید نے علماء کا جو اثر کم کر دیا تھا وہ خلافت کمیٹی کی سیاست کے بعد دوبارہ بحال ہو گیا ہے اور اسی اثر سے وہ خائف تھے۔ ماجد صاحب کی تنقید نے اقبال مرحوم کو بہت محتاط بنا دیا تھا۔ یہ ﷲ تعالیٰ کا خاص احسان ہے ورنہ اقبال مرحوم جیسے قیمتی شخص کے قلم سے دشمنان اسلام کو بہت مہمیز مل سکتی تھی۔(۴۱۱) خطبات اقبال دراصل مسلم جدیدیت کی بائبل ہے لیکن اتنی ادق اور عسیرالفہم ہے کہ منکرین حدیث اپنے خاص موثر اسلوب میں زندگی بھر صرف خطبات اقبال مرحوم کی تشریح لکھ دیتے تو لاکھوں مسلمانوں کا ایمان متزلزل کر دیتے۔...اگر جدیدیت پسند طبقات میں سے ایک بھی خطبات کو اپنا اوڑھنابچھونا بنا لیتا تو اس تحریک کو روکنا مشکل تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ مستقبل میں برعظیم کے مذہبی معاشروں کو تہس نہس کرنے کے لیے خطبات اقبال کو ایک طاقتور قوت کے طور پر کام میں لایا جائے گا۔(۳۰۱)
اقبال مرحوم نے آیات کو سیاق وسباق سے کاٹ کر مطالب اخذ کیے ہیں۔ ان مطالب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اقبال مرحوم کا فہم قرآن نہایت ناقص تھا۔ وہ قرآن کی تشریح و تفہیم پر قادر نہ تھے اور قرآنی الفاظ کا درست مفہوم نہیں سمجھ سکتے تھے، کیونکہ ان کی عربی استعداد برائے نام تھی۔...اسلام کی تشکیل جدید کا دعویٰ کرنے والے اگر قرآن ہی سے واقف نہیں ہیں تو انھیں تشکیل کا کیا حق پہنچتا ہے۔(۵۹) اقبال مرحوم کے یہاں تضادات کا یہ تنوع غالباً اس وجہ سے بھی ہے کہ اقبال مرحوم نے ۲۱۹۱ء کے بعد سے مطالعہ کتب ترک کر دیا تھا۔ وہ صرف قرآن پڑھتے تھے یا مثنوی۔ کبھی کبھار کوئی کتاب دیکھ لیتے۔ لہٰذا صرف قوت حافظہ، سابق مطالعہ اور زبردست قوت مشاہدہ کے زور پر وہ علمی و تحقیقی کام کرتے تھے۔(۶۹)

)ماخوذ از ”جریدہ“، شمارہ 33، شعبہ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی۔ مدیر: خالد جامعی(



منگل، 19 مئی، 2015

پی کے، اوہ مائی گوڈ اور مذہبی مسائل

ارسطو کا ایک جملہ بہت مشہور ہے، انسان سماجی جانور ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر انسان سماجی جانور ہے تو سماج کیا ہے؟سماج آخر ہماری زندگی کے اصول کس طرح طے کرتا ہے، کیسے وہ مجھے سکھاتا ہے کہ مجھے کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا، آخر ایسا کیوں ہے کہ جس چیز پر لوگ ہنستے ہیں، ہم اس کے وجود سے رفتہ رفتہ ڈرنے لگتے ہیں۔پی، کے جو حال میں ہی ریلیز ہونے والی ایک کامیاب بالی ووڈ فلم ہے، اس کا بھی ایک منظر یہ ہے کہ کسی سیارے سے آیا ہوا آدمی جب یہ دیکھتا ہے کہ اس کے پہناوے کی وجہ سے لوگ اس پر ہنس رہے ہیں تب اس کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ اس نے لڑکی کا گھاگھر ا اور لڑکے کا شرٹ پہن رکھا ہے ،جس کا زمین یا خاص طور پربھارت جیسے ملک میں کوئی رواج نہیں ہے۔تو پھر سماجی اصول کیا اس طرح طے کیے جاتے ہیں کہ وہ بات درست ہے، جس پر لوگ ہنس نہ سکیں۔یعنی خود پر ہنسنے کا کوئی موقع کسی دوسرے آدمی کو نہ دیا جائے۔اب ہنسنے کا موقع نہ دینا انسان کے اپنے بس کی بات نہیں، مگر اس بات کا کیا جائے جس پر انسان کو خود ہنسی آنے لگے، جیسے کہ پتھر کی مورتیوں کو پوجنا، درگاہوں یا مورتیوں پر چادریں چڑھانا، کسی پتھر کو مقدس تسلیم کرکے اسے چومنے لگنا یا کسی جانور کو غلیظ تصور کرکے اس سے گھن کھانا اور اسے حرام قرار دے دینا۔جس نے بائبل کا تھوڑا سا بھی حصہ پڑھ رکھا ہے وہ شخص تو دنیا بننے کے قصے کو پڑھ کر بھی ہنس سکتا ہے، کیونکہ دنیا بننے سے پہلے کا پورا واقعہ اگر خالص مذہبی پیرائے میں نہ بیان کیا جائے تو کسی لطیفے سے کم نہیں۔ہم جو کچھ بھی سوچتے ہیں، بہت سے سماجی اصول دراصل اس سوچ کو روکنے، ان پر پابندی لگانے یا ان کو ڈھانپے رکھنے کے لیے بنائے گئے ہیں، پھر غور کیجیے تو یہ سارے سماجی اصول دراصل سماج بھی نہیں بناتا، ہر زمانے کا اقتدار اعلیٰٰ کچھ خاص قسم کے سماجی اصولوں کو پسند کرتا ہے اور سماجی خدمتگار اچھائی کی مخصوص تعریف کے ذریعے اسے فائدہ پہنچانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔کسی بھی قسم کے اقدار جب مقتدرین کو نقصان پہنچانے لگیں تو وہ ان کے نزدیک بے ہودہ ہوجائیں گے، صرف یہی وجہ ہے کہ ایک خاص قسم یا خاص جماعت کا مقتدر ذہن دوسرے سماج یا دوسری جماعت کے مقتدر ذہن کے اقداری اصولوں کو کچرا ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے۔مذہب یا سماج کسی بھی برائی کو روکنے کا سیدھا طریقہ نہیں بتا سکتے چنانچہ اس کا الٹا طریقہ کار پیش کرتے ہیں، یعنی کہ اگر آپ کی شکل بھدی ہے تو آئنہ ہی مت دیکھیے وہ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ آئنے میں اپنی شکل غور سے دیکھیے ، اس کے بعد آپ کو اپنی شکل میں جو خامیاں نظر آتی ہیں وہ ہمیں بھی بتائیے اور پھر سب مل جل کر اس طرح کی پریشانیوں کو دور کریں گے۔
ہندوستان جاگ رہا ہے، یہاں پی کے اور اوہ مائی گوڈ جیسی فلمیں بن رہی ہیں، اوہ مائی گوڈ جو کہ ایک گجراتی ناٹک کانجی وردھ کانجی پر مبنی فلم ہے، بہرحال ایک سمجھوتے پر بنائی گئی فلم ہے ، جس میں خدا کے وجود کو اس کی نرآکار وجودیت کے ساتھ قبول کرنے پر زور دیا گیا ہے، جس میں خدا کی طرف سے کوئی نشانی، کوئی تعویذ یا مورتی نہ بنائے جانے کی تلقین کی گئی ہے بلکہ اس کی کہی ہوئی باتوں، الہامی کتابوں اور الفاظ کو یاد رکھنے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔چونکہ فلم کو دیکھنے والے ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی سبھی ہیں، اس لیے اسے ایک خاص تجارتی رواداری کا خیال رکھتے ہوئے بنایا گیا ہے، جس سے مذہب کے جانب دارٹھیکیدار ناراض ہوں تو ہوں ورنہ باقی سب خوش ہونگے۔فلم میں چمتکار پر سے لوگوں کا یقین ہٹانے اور انہیں اندھی تقلید سے بچانے کے لیے ایک ایسا راستہ انتخاب کیا گیا ہے جو کہ خود چمتکار اور اندھی تقلید کے کنکروں سے بنا ہوا ہے۔فلم میں بے وقت، بے وجہ پریش راول کو لقوہ مارجانااور اس لقوے کا ڈاکٹروں کے جواب دینے کے باوجود بھگوان کے چمتکار سے ہی ٹھیک ہونا دراصل جلے ہوئے دلوں پر پھایا رکھنے کا کام کرتا ہے کہ کانجی جس تندہی سے اپنے مقصد کے لیے لڑرہا تھا آخر میں وہ اس پوزیشن میں آجاتا ہے کہ بھگوان کی انگلی میں ناچنے والی کی چین کو اٹھا کر پورے سمان کے ساتھ اپنی جیب میں رکھنے لگتا ہے۔فلم کا وہ آخری منظر جس میں اسے ندائے غیب کے ذریعے خدا کی نشانی کو گلے سے لگانے پر پھٹکارا جاتا ہے، دراصل اس پورے مقصد کے حق میں سم قاتل ہے جو ہندوستانی عوام کو جاہلیت کے دور سے باہر لا سکتی ہے۔انکار کبھی دوہرے معاملات کے ساتھ نہیں ہوسکتا، انکار پرانی عادتوں، بے وقوفی کی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کیا جاسکتا، انکار تو کھرا ہوتا ہے، اس پر چمتکار کی ملمع سازی ممکن نہیں۔پی کے اس حساب سے دوسرے مزاج کی فلم ہے، اس میں ہندوستان میں مذہب کے بنائے ہوئے جھوٹے جال اور چمتکار کے نام پر آدمی کو بہکانے والے راکشسوں سے پیچھا چھڑانے کی تحریک پر زور دیا گیا ہے۔پی کے پر صرف میرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں آخری منظر میں بھی کسی عورت کو دوسرے پلینٹ پر سے آتا ہوا کیوں نہیں دکھایا گیا، کیا فلم کو بناتے وقت اس پلینٹ پر عورت کے وجود کا خیال ہی کسی کو نہیں آیا، کیا عورت وہاں بھی گھر کی چار دیواری میں قید ہے یا عورت کو کند ذہن یا پچھڑے ہوئے طبقے میں شامل رکھنا ہماری عادت بن چکا ہے ۔میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ سائنسی ایجادات میں آدمیوں کے کارنامے عورتوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہیں، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس سیارے کے لوگ بھی عورت کی ذہنی تربیت میں اتنے ہی پچھڑے ہوئے ہوں،آدمی کو اپنی ایجاد پر فخر کرتے ہوئے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خود ایک عورت کی ایجاد ہے، عورت ہی ہے جو اپنے پیٹ کی مشین میں پورے نو مہینے اسے تیار کرکے زمین پر انڈیلنے کے لائق بناتی ہے ، ورنہ آدمی کا وہ گندا قطرہ ، جس پر اسے ابوالبشر ہونے کا اعزاز دیا گیا ہے، عورت کی شرمگاہ میں نہ اترسکے تو نالی، گھانس، کچرے یا کسی اور شے کی نذر ہوجاتا ہے۔اس اعتراض کے جواب میں ہمارے ایک فاضل دوست نے کہا تھا کہ پی کے میں عورت کو اس حالت میں دکھانا ممکن نہیں تھا، جس میں عامر خان کو دکھایا گیا ہے، یعنی کہ ننگا، اور ننگا دکھانے کا مقصد یہ پیغام دینا تھا کہ جس طرح بچے دنیا میں آتے ہیں، اس فلم کا مرکزی کردار اپنی معصومیت سمیت دھرتی پر اترا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عورت کے بارے میں یہ تصور قائم کرنے میں ناکام ہیں کہ وہ بھی ننگی ہی پیدا ہوتی ہے۔جس بات میں قدرت نے کوئی امتیاز نہیں کیا، انسانی عقل نے اس کو بھرپور طریقے سے دو حصوں میں باٹ دیا ہے۔عجیب بات ہے کہ ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں سب جانتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر بھی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس فحش ہی ہوا کرتی ہیں ، مذہبی ویب سائٹس سے بھی کئی گنا زیادہ۔پھر بھی ہمیں عورت کو ایک لاجیکل معاملے میں ننگا دیکھنے سے شرم آتی ہے۔ہندوستانی سماج میں عورت کو صرف اکیلے میں ننگا دیکھا جاسکتا ہے، پھر چاہے وہ اپنی ہو یا پرائی، آپ اسے سامنے سے دیکھ رہے ہوں یا چھپ کر، وہ آپ کے بستر میں ہو یا آپ کے اسکرین پر۔ہم اس سچ کو بہت جلدی قبول کرلیتے ہیں کہ مرد کو اپنا وہ حصہ دکھانا چاہیے جو کہ خوبصورت ہے، اس کی ڈولتی ہوئی بازوؤں کی مچھلیاں، اس کی تڑکتی بھڑکتی بھری ہوئی چھاتی، طاقت کا مظاہر ہ کرتی ہوئی رانیں وغیرہ وغیرہ مگر عورت کو اپنا حسن دکھانے کے لیے سماجی سرٹیفکٹ لینے کی ضرورت ہے، ان سب کے باوجود جب وہ فلموں میں اپنے خوبصورت بدن کی نمائش کرکے چار پیسے کمانے کے لائق بن جائے تو وہ ننگی۔دراصل عورت کو ننگا دیکھنے سے ہم اس لیے ڈرتے ہیں کیونکہ جس نے عورت کو اس حالت میں دیکھا، سماج کی نظر میں وہ ننگا ہوجاتا ہے۔اس لیے سماج نے اس کے خفیہ راستے تیار کیے ہوئے ہیں۔
پتہ نہیں کیوں ، اس سچ کو جانتے ہوئے بھی کہ سارے معاملات یا عوامل کا دار و مدار دراصل نیت پر ہے، نیت اگر نیک ہے تو انسان بھی نیک ہے، نیت اگر بری ہے تو انسان بھی برا ہے، ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کوئی جنسی مریض قرآن میں موجود حوروں کی ستروں کا ذکر پڑھ کر حظ اٹھائے کیونکہ وہاں ہم نے تقدس کی قید لگادی ہے، ذہن کا معاملہ تھوڑا سا عجیب ہے، اسے جس طرح کے حالات، جس طرح کے معاملات میں ڈھالا جائے وہ ڈھل جائے گا۔اگر ہم مذہب کے ہی سہارے نئے زمانے میں مردوں کا عورتوں کے تعلق سے ایک نیا مائنڈ سٹ تیار کرسکیں تو کتنا بہتر ہوگا ۔پی کے اور اوہ مائی گوڈ جیسی فلمیں جن مذہبی مسائل کی طرف توجہ دیتی ہیں ان کا ادراک اپنی جگہ ، مگر مذہبی مسائل سے چھٹکارا اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک مقتدرہ قوتوں کو اس بات کا احساس نہ دلایا جائے کہ لوگ اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کا تمیز سیکھ گئے ہیں، جس دن سیاسی جماعتوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ جعلی پنڈتوں، ملاؤں اور دھرم گروؤں کے خاتمے سے ایک نیا ووٹ بینک تیار ہوسکتا ہے تو وہ اس طرف بھی توجہ دیں گے، ورنہ آرٹ کے لیے تو ہر زمانے میں مذہبی پابندیاں اور ریاکاریاں لوگوں کے سامنے لانا ایک اہم مقصد رہا ہے، مگر اس سے حالات بدلتے کم ہیں بلکہ لوگ اس طرح کی فلموں کو انٹرٹینمنٹ کے لیے دیکھ کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔دراصل ہم ہندوستانی ہیں اور تفریحی یا چمتکاری عناصر کو کبھی اپنی زندگی سے الگ کرکے چیزوں کو نہیں دیکھ سکتے، میں فلم پی کے کی نیت پر شک نہیں کررہا کہ یہ کہہ دوں وہ ہندو مسلم رشتے کو بہتر بنانے کی سعی سے زیادہ ایک کامیاب کمرشل حربہ تھا جب عامر خان انشکا شرما کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کے پاکستانی مسلمان دوست نے انہیں دھوکا نہیں دیا ہے بلکہ پاکھنڈی بابا کی برین واشنگ کے زیر اثر وہ اس کے بارے میں اپنے آپ فیصلہ کرچکی ہے۔لیکن اس میں کیا شک ہے کہ ہمیں اس معمے کو حل کرنے کے لیے بھی ایک چمتکار کی ضرورت پڑی، یہاں بھی تو ہمارا برین واش کیا جارہا ہے کہ بھئی! کوئی آسمانی یا خلائی مخلوق ہی اس طرح کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔سائنس کی انتہائی ترقی کے زمانے میں بھی چمتکار کے اس رویے کو کسی نہ کسی طرح ہندوستانی پبلک کے جذبات کا خیال رکھ کر فلم میں شامل کرنا اس بات کا شاہد ہے کہ ہم بدل کر بھی بدلنا نہیں چاہتے۔کوئی پیغمبر نہ سہی کوئی ایلین سہی، کوئی دھرم گرو نہ سہی کوئی ایکٹر سہی،مگر ہمارے دماغوں کو تابع کرنے کے لیے چمتکاروں کا سہارا لیا جاتا تھا اور لیا جاتا رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان دونوں فلموں میں بہت سے اہم مذہبی مسائل کو صاف طور پر دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، مگر بہت سے ضمنی مسائل ایسے بھی ہیں جو بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔کوئی بھی کٹر سوچ آخر کس طرح جنم لیتی ہے، ماحول اور سماج مل کر آخر لوگوں کو کس طرح چھواچھوت اور مذہبی تعصب کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں، انسان اپنی چھوٹی بڑی بہت سی باتوں سے خدا کو اپنے طور پر خوش رکھنے کے جتن کرنے لگتا ہے، اور اس چکر میں انسان سے، رشتہ داروں سے حتیْ کہ خود سے بھی دور ہونے لگتا ہے، مجھے اکثر اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ خدا بال بڑھانے سے بھی خوش ہوسکتا ہے۔مگر انسان کی موٹی عقل میں یہ بات آنے نہیں پاتی کہ خدا کو بال کٹانے یا بڑھانے سے زیادہ انسان کے خوش شکل ہونے پر خوشی ہونی چاہیے۔مسابقت کے اس دور میں جہاں ایجوکیشن بجائے خود ایک صنعت میں تبدیل ہوتی جارہی ہے، وہاں مدرسے، ضلع پریشد یا دھارمک پاٹھ شالاؤں میں پڑھنے والے بچے کہاں جائیں گے۔اس بہانے چار اکشر تو ان کے گلے سے نیچے اتر جاتے ہیں، کچھ تو ہے جو ان تک پہنچ جاتا ہے، پھر سیکولر سوچ کہاں سے جنم لے۔سارا کام ’ستیہ میو جیتے‘ کے ذریعے تو نہیں ہوسکتا۔جس کو ہوسٹ کرنے کی اچھی خاصی رقم عامر خان صاحب خود لیتے ہیں۔تو سوال یہ ہے کہ جہاں تعلیم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہی مذہب ہو وہاں مذہب کے ذریعے حاصل کی جانے والی خوف اور لالچ کی تعلیم کا قلع قمع کیسے کیا جائے۔
غریب طبقہ جس میں سماج کا متوسط طبقہ بھی شامل ہے، اپنی خواہشوں ، آرزوؤں کی تکمیل کا کوئی راستہ تلاش کرتا رہتا ہے، اس پر ایک طرف سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کا بھاری بوجھ ہے، دوسری طرف قانون کی سخت نظر، سب کی نگاہ میں عزت بنائے رکھنے کا خوف اور شرافت کا ایک بے ڈھب چوغہ۔ایسے میں وہ کہاں جائے، لے دے کر اسے اللہ یا بھگوان کے پاس جانا پڑتا ہے، یہ اللہ یا بھگوان اس کا مسئلہ حل نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر پک رہے ضرورت یا لالچ کے لاوے کو اظہار کا ایک ذریعہ عطا کردیتے ہیں، اس اظہار کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر مذہبی غنڈے ان سے رقم اینٹھتے ہیں اور حکومت چاہتی ہے کہ یہ پورا کا پورا طبقہ محنت و ذلت کی چکی میں دن رات یونہی پستا رہے۔اب اس کی تبدیلی کی گنجائش جب تک نہیں نکلتی کسی بہتری کے راستے کی توقع کرنا بے کار ہے۔چلیے مان لیتے ہیں کہ ایک متوسط قسم کا آدمی ان اوٹ پٹانگ مذہبی رسموں سے آزاد ہوجاتا ہے ، غریب آدمی راون کو جلانے اور محرم کا علم اٹھانے کے طریقوں کو تیاگ دیتا ہے تو اس کے اظہار کو دوسرا کوئی بہتر راستہ تو دیجیے ، اس کو آسائش نہ سہی، مگر جتنا ہے اتنے میں صبر کرتے رہنے اور بھگوان کے دوار میں ان کے لیے رکھے گئے پھل کے چھلاوے سے مکت کردینے کے بعد آپ کیا دے سکیں گے۔ہمیں بیماری سے زیادہ بیماری کو پیدا کرنے والے جراثیم کو مارنے کی جانب توجہ دینی چاہیے۔بہرحال ہندوستان میں رہنے والے عام لوگوں کے اقتصادی، روحانی اور معاشرتی مسائل اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کو لیوش ڈرائنگ میں بیٹھ کر سانس لینے والے خوشبو دار ذہن حل نہیں کرسکتے، اس کے لیے تو انہیں اپنے ہی بنائے ہوئے راستوں کی طرف جانا پڑے گا، ہاں بنیادی غلطیوں اور مسائل کی جانب توجہ دی جائے تو شاید کچھ مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

 مضمون نگار: تصںیف حیدر

پیر، 18 مئی، 2015

یاہودا امیخائی کی نظمیں

یاہودا امیخائی (1924-2000)اسرائیل کا ایک عالمی شہرت یافتہ جدیدشاعر تھا۔اسے اپنی زندگی میں قریب چار بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔اس کی پیدائش جرمنی کے شہر ورزبرگ میں ایک سخت مذہبی یہودی گھرانے میں ہوئی، گھریلو ماحول کی وجہ سے بہت جلد اسے جرمن اور ہیبرو زبانوں پر عبور حاصل ہوگیا۔اس نے برطانوی فوج میں شامل ہوکر دوسری جنگ عظیم میں حصہ بھی لیااور وہ اسرائیل کی جنگ آزادی کی تحریک سے بھی وابستہ رہا۔1946میں بڑٹش آرمی سے الگ ہونے کے بعد اس نےیروشلم کے ڈیوڈ یلین ٹیچر ز کالج میں داخلہ لیااور کچھ عرصے بعد خود بھی ٹیچر بن گیا۔جنگ آزادی کے بعد امیخائی نے ہیبرو ادب اور بائبل کا عمیق مطالعہ کیااور ہیبرو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحریک پر ہی اس نے1955 میں اپنا پہلا شعری مجموعہ 'نائو اینڈ ان ادر ڈیز 'کے نام سے شائع کروایا۔1956 میں یاہودا کو'سوئز بحران'کے لیے بھیجا گیا واضح ہو کہ مصر کی جانب سے 26 جولائی 1956ء کو نہر سوئز کو قومی ملکیت میں لینے کے فیصلے نےمغربی ملکوں اور اسرائیل میں تہلکہ مچادیا کیونکہ نہر سوئز اس وقت برطانیہ اور فرانس کی ملکیت میں تھی۔ برطانیہ اور فرانس کی پشت پناہی پر مصر کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو "سوئز بحران" کہا جاتا ہے۔1973 میں اسے جنگ یوم کپور ، جنگ رمضان یا جنگ اکتوبر کے لیے بھیجا گیا، جسے عربی میں حرب اکتوبر بھی کہا جاتا ہے۔یہ جنگ بھی 6 اکتوبر سے 26 اکتوبر 1973ء کے درمیان مصر و شام کے عرب اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی گئی، 1963 میں اس نے اپنا پہلا ناول 'ناٹ آف دس ٹائم، ناٹ آف دس پلیس'کے عنوان سے شائع کیا۔یہ ناول ایک ایسے نوجوان کے بارے میں ہے جو دوسری جنگ عظیم اور اسرائیل کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کے بعد اپنے ملک جرمنی واپس لوٹتا ہے، اور اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے ان اسباب کا جائزہ لینا چاہتا ہے جنہوں نے 'ہولوکاسٹ'یعنی جرمنی میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کو ممکن بنایا۔اس کا دوسراناول 'می یتننی میلن'1971میں منظر عام پر آیا، جس میں اس نے ایک ایسے اسرائیلی کی کہانی بیان کی ہے جو کہ نیو یارک میں رہ رہا ہے۔ایک ایسے انسان نے جو کہ سپاہی کا جسم اور شاعر کا دل رکھتا تھا، اپنی زندگی میں موت اور زندگی دونوں کو نزدیک سے گزرتے اور روح کی طرح خود سے آرپار ہوتے ہوئے محسوس کیا تھا۔اس کی زیادہ تر نظمیں اسی لیے موت اور زندگی کی ننگی حقیقتوں کا فلسفہ سمجھنے سمجھانے میں وقف ہوئی ہیں، زاہد امروز نے ان نظموں کو اردو زبان کا قالب عطا کیا ہے اس لیے میں ان کا بے حد شکرگزار ہوں، یاہودا کا اسلوب نہایت غیر رسمی ہے ،اور جنگ کی گھن گرج سے زیادہ اس کی نظموں میں زندگی کے تاریک سناٹے زیادہ رقصاں نظر آتے ہیں۔امید ہے کہ یہ نظمیں آپ سبھی کو ضرور پسند آئیں گی۔


اِس دنیا میں خدا کا ہاتھ ہے


(1)
اِس دنیا میں خدا کا ہاتھ ہے
جس طرح ہفتے کی شام میری ماں کا ہاتھ
ذبح کی ہوئی مرغی کی انتڑیوں میں ہوتا ہے

جب خدا کے ہاتھ زمین تک پہنچتے ہیں
وہ کھڑکی میں سے کیا دیکھتا ہے؟
میری ماں کھڑکی میں سے کیا دیکھتی ہے؟

(2)
میرا دُکھ ہی میرا جدِ امجد ہے
اِس نے میرے دکھوں کی دو نسلوں کو جنم دیا
جو اُس کی ہم شکل ہیں

میری امیدوں نے میرے دل میں اِس ہجوم سے بہت دور
سفید گھروں کے منصوبے تعمیر کیے
لیکن میری محبوبہ اپنی محبت
پگڈنڈی پر گری اُس سائیکل کی طرح بھُول گئی
جو رات بھر اوس میں بھیگتی رہتی ہے

بچے گلیوں میں
میری زندگی کے ادوار
اور یروشلم کے ادوار
سفید چونے سے نشان زد کرتے ہیں
اور ایسی دنیا میں خدا کا ہی ہاتھ ہے
....................

ابنِ جبیرول

کبھی پیپ
تو کبھی شاعری
ہمیشہ ایک درد رہتا ہے
ہمیشہ اِس دل سے کچھ بہتا رہتا ہے

باپو ں کے جھُنڈ میں میرا باپ
سبز کائی سے ڈھکاایک درخت تھا

اُس جسم کی بیواؤ!
اُس خون کے یتیمو!
میں یہاں سے فرار ہو جاؤں گا
یہاں درانتی کی طرح تیز آنکھیں
گہرے راز کریدتی رہتی ہیں

لیکن میرے سینے کے زخم میں سے
خدا کائنات کو دیکھتا ہے
میں اُس کے حجرے کا دروازہ ہوں

....................

خدا صرف کنڈر گارٹن کے بچوں پر مہربان ہے

خدا کنڈرگارٹن کے بچوں پر مہربان ہے
لیکن اُسے اسکول کے بچوں پر ترس نہیں آتا
اور جو بچے بڑے ہوگئے
اُن پر ذرہ بھر رحم نہیں

وہ انہیں اکیلا چھوڑ دیتا ہے
ابتدائی طبی امداد کے مرکز پہنچنے کے لیے
ہربار انہیں جانوروں کی طرح
جلتی ریت پر رینگنا پڑتا ہے
جو ہمیشہ خون میں لت رہتا ہے

کاش کبھی خدا محبت کرنے والوں کو دیکھے
اور عوامی بنچ پر سوئے
بوڑھے آدمی پر درخت کے سائے کی طرح
اُن پر سایہ کرے

کاش ہم بھی درد مندی کے آخری قیمتی سکّے
اُن میں بانٹ دیں
جو ہماری ماں نے ہم کودئیے
تاکہ اُن کی خوشی ہمیں محفوظ رکھے
آج بھی
اور آنے والے بُرے دنوں سے بھی!

....................


میری ناک میں پٹرول کی بو چڑھتی ہے

میری ناک میں پٹرول کی بُو چڑھ رہی ہے
لیکن اے محبت!
میں تجھے ایٹراگ* کے پھل کی طرح
نرم اُون میں رکھوں گا
بالکل اُسی احتیاط سے
جس طرح میرا مرحوم باپ کیا کرتا تھا

دیکھو!
ذیتون کا درخت اب اُداس نہیں
اسے خبر ہے کہ موسم بدل جاتے ہیں
اور اِک دن انسان کو رخصت ہونا ہی پڑتاہے
میرے پہلو میں آؤ
اپنے آنسو صاف کرو
اور یوں مسکراؤ
جیسے فیملی فوٹو اُترواتے وقت مسکراتے ہیں

میں نے اپنی سلوٹ زدہ قمیض
اور اپنے مصائب باندھ لیے ہیں
اُن صحراؤں کی جانب
جن میں محض جنگ ہے
جن صحراؤں میں کوئی کھڑکی نہیں
اُن صحراؤں کی جانب کھلی کھڑکی میں کھڑی میری لڑکی!
میں تمہیں کبھی نہیں بھولوں گا

کبھی تم اس قدر ہنسا کرتی تھیں
اب تم صرف خاموش رہتی ہو
ہمارا محبوب وطن کبھی احتجاج نہیں کرتا
لیکن بہت جلد
ہوا خشک پتوں میں سرسرائے گی
میں تمہارے پہلو میں دوبارہ کب سوؤں گا؟

ہم سے غیر مشابہ
زمین کی تہہ میں کتنا خام مواد ہے
جسے اِس تاریکی سے کبھی کسی نے نہیں نکالا
دیکھو جنت میں فوجی طیارے
ہم پر رحمتیں برساتے ہیں
اوراِس خزاں میں محبت کرنے والوں پر!

* Etrog; fruit used in Jewish rituals during the festival of Sukkot

....................

یاہودا ہار لیوی

اُس کی گردن کے نرم ملائم بال
اُس کی آنکھوں کی جڑیں ہیں

اُس کے بالوں کے خم
اُس کے خوابوں کا تسلسل ہیں

اُس کی پیشانی، جیسے بادبان
اور بازو۔۔دو پتوار
جو روح کو اُس کے جسم میں
یروشلم تک لے جاتے ہیں

لیکن اُس کے ذہن کی سفید مُٹھّی میں
زرخیز بچپن کے سیاہ بیج ہیں

جب وہ اپنی محبوب، خشک زمین پہ پہنچے گا
وہ انہیں وہاں بوئے گا

....................

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *