راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی طرح ان کے مضامین بھی بے حد دلچسپ ہیں۔ کہانی کے تعلق سے ہمارے یہاں بہت سی باتیں ہوئی ہیں، لوگوں نے مختصر افسانے کو کبھی پچھڑے طبقے کی مخلوق جانا، کبھی لوگوں نے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیے مگر مجھے بیدی کے اس مضمون میں جو خالصتا ایک تخلیقی مضمون ہے،افسانے کے تعلق سے ایسی تنقید پڑھنے کو ملی ہے کہ یہ روگ کسی ثقہ و معتبر نقاد کے بس کا نہیں معلوم ہوتا۔کہانی کیسے کہی جاتی رہی ہے، اس کی خاصیت کیا ہے،کون سے عناصر سے الگ ہوکر کہانی ، کہانی نہیں رہ سکتی اور ساتھ ہی ساتھ وقت کے ساتھ کہانی کے کردار کیسے اپنے علامتی روپ رنگ بدلتے ہیں۔یہ سب اس مضمون میں صاف ظاہر ہے۔بیدی کے افسانوں میں طنز کی جو لہر ہے، اس کی چمک یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ان کی افسانہ سازی کا پروسز اپنے عہد کے دوسرے فنکاروں سے الگ ہے اور مجھے وہ ان سے کافی بہتر و افضل بھی معلوم ہوتا ہے۔امید ہے کہ اس مضمون پر اور بات ہوگی۔شکریہ (تصنیف حیدر)
ایک محاورہ ہے — ’’جتنے منھ اُتنی باتیں۔ ‘‘
اس لیے مختصر افسانے کا کوئی کلّیہ قائم نہیں کیا جا سکتا ،البتّہ اس کا احساس دلایا جا سکتا ہے ۔ جہاں تک کہانیوں کا تعلق ہے’’ پنچ تنتر ‘‘ کے قصّوں اور ’’ الف لیلیٰ ‘‘ کی داستانوں سے لے کر بریٹ ہارٹ اور جونا بارنے تک بیچ میں ہزاروں ہی لوگ آئے اور اپنی بات ، اپنے ہی منفرد طریقے سے کہتے رہے ۔ کسی نے رومان کو اپنا ایمان بنایا اور تحیّر کے عنصر کو کہانی کی جان قرار دیا ؛ پڑھنے والے کو ایسی پٹخنی دی کہ ہوش آگئے یا اُڑ گئے !( تعلّی کے مضمون میں ہوش آجانا یا اُڑ جانا ایک ہی بات ہے ) چیخوف کی طرح کے بھی آئے، جن کی زندگی کے صحرا میں بڑا سا تربوز مل گیا اور انھوں نے بڑے پیار ، بڑی ہمدردی سے اس کی چھوٹی چھوٹی پھانکیں کاٹیں اور سب کے ہاتھ میں تھما دیں ۔ لارنس نے حیات کی نیم غنودگی میں رنگ و بو کا لخلخہ سونگھا اور دوسروں کو بھی سنگھا دیا ۔ جو برداشت کر گئے، ان کی تو آنکھیں کھل گئیں اور جو نہ کر سکے، وہ آج تک چھینکیں ماررہے ہیں۔ ایڈگر ایلن پونے کہا :’’ کہانی کا ہر حصّہ جو برق و تجلّی ہو،کاٹ دو کیونکہ وہ شب رنگ کہانی کے مجموعی تاثّر کو دبادے گا۔‘‘ اور وہ یہ بھول ہی گئے کہ ایسی کہانی بھی لکھی جا سکتی ہے جس میں دن کا رنگ غالب ہو۔ خودکشی سے چند ہی مہینے پہلے ہیمنگ وے نے کہا کہ’’ میں نے اپنی تحریروں میں طالسٹائی اور بالزاک ،موپاساں اور چیخوف کو سمولیا ہے۔‘‘ اور یہ امرِ واقع ہے کہ ان کی کہانیوں میں ہمیں ان سب استادوں کا ایک خوبصورت سا امتزاج نظر آتا ہے ؛البتّہ اسٹائل میں کھردراپن ، کردار اور مواقع میں تشدّد اُن کا اپنا تھا ،کیونکہ انھوں نے زندگی کو اسی رنگ میں دیکھا تھا، جو ان ہی کے لیے مہلک ثابت ہوا ۔زندگی کودوسرے کے رنگوں میں قبول کرنے والے نہ تو سو مرسٹ ماہم کی کلبیت سے انکار کر سکتے ہیں، اور نہ ژیاں پال سار تر کی عصبیت سے، اور نہ ولیم فاکز کی یا سیت اور قنوطیت سے۔
اپنے، اور صرف اپنے ، نقطۂ نظر سے دیکھنے والوں کو جاننا چاہیے کہ اگر اونٹ ان کی نظرسے اونٹنی کی طرف دیکھے گا تو کبھی اس پر عاشق نہیں ہو سکتا ۔ آج جب الیکٹرونک مشین پر نظمیں لکھی جا رہی ہیں ، کہانیاں قلم بند ہو رہی ہیں اور ARTIFICIAL INSEMINATION سے بچے پیدا کیے جارہے ہیں تو ہماری اولاد کو ایفرودایتے(APHRODITE)اور دمتیری یاس (DEMETRIUS)کی داستانوں کو خوبصورت قصّوں کی صورت میں یاد رکھنا ہوگا، ورنہ ان کے زمانے میں تو مرد کا سر کدّو کی طرح تھا اور عورت کے کولھے اور چھاتیاں سیتا پھل کی مانند — تو گویا ہنری جیمز،کیتھرین مینس فیلڈ ،او ۔ ہنری اور ولیم سرویاں تک پہنچتے پہنچتے افسانے میں انفرادیت کے علاوہ رچاؤ اور گہرائی اس قدر بڑھ گئی کہ ان افسانوں کی ایک ایک سطر اپنے اندر کئی کئی افسانے لیے ہوئے تھی ؛ پھر ٹیگور کی کہانیوں کی نظمیہ کیفیت ، سرت چیٹر جی کی گھلاوٹ جیسے شکنجبین کی مصری ، پریم چند کی سادگی اور ان کا خلوص، جو بعض وقت مہاشائیت ہوکر رہ جاتا ہے ۔
غرضیکہ جتنے منھ اتنی ہی باتیں ۔ جتنے منھ ان سے زیادہ باتیں — اور پھر ان میں سے ایک میرا منھ جو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ اسے بڑے شوق سے دیکھیے ، ہنسیے یا روئیے (تعلّی کی زبان میں ہنسنا یا رونا ایک ہی بات ہے !) لیکن ایک بات کا ضرور خیال رکھیے کہ منھ دیکھتے رہ جانا بھی ہماری زبان کا ایک محاورہ ہے ۔
ہمارے پرانے فلسفیوں کے مطابق یہ دنیا ایک تخیّل ہے۔ ہم شروع اور آخر کے انداز میں سوچنے والے ، اس تخیّل کی تہہ کو نہیں پاسکتے۔ لیکن اپنے اندر اس عظیم تخیّل کی حدوں کا ایک دھند لاسا تصوّر باندھ سکتے ہیں۔ پھر:
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
اب اس خیال کو دامِ خیال میں لاکر ہم نے ایک افسانوی طرز کی سازش پیدا کر لی، جس کی جزا افسانے کی صورت میں ملی اور سزا عمر قید کی شکل میں۔ افسانہ طویل یا مختصر — خدا کے تصوّر سے شروع ہوتا ہے، جو ایک سے انیک اور انیک سے پھر ایک ہوجاتا ہے۔ عجیب سازش ہے نا کہ ابتدا میں انجام چھپا ہو اور انجام میں ابتدا کی صورت ہو۔ اسی چکر کو افسانہ کہتے ہیں۔
ہو سکتا ہے افسانہ ایک خواب ہو جس میں ہم کھو جائیں اور اکثر اوقات جاگنے پر بھی جی چاہے کہ سرہانے میں آنکھیں دبا کر پھر سے وہ خواب دیکھیں ،جس میں کسی حور نے کہا تھا: ’’میں تھوڑی دیر میں آئوں گی۔‘‘ لیکن اس کے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے ٹیلی فون کی گھنٹی نے جگا دیا۔ اب ٹیلی فون پر کوئی خان کہہ رہا ہے ’’میں ابھی آرہا ہوں —‘‘ زندگی کا یہ استہزا کیا افسانہ نہیں؟
گویا خدا اور اس کے تصوّر کے بعد پہلا افسانہ اس وقت لکھا گیا جب آدم کے پہلو سے حوا بر آمد کی گئی۔ دوسرا افسانہ اس وقت لکھا گیا جب دو وجود ،مرد یا عورت ،ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے اور اپنی اپنی ذات کو محسوس کرنے لگے۔ اور کہا — میں اور تو … اور پھر وہ مسکرانے ، آب دیدہ ہونے لگے ؛ پھر اس میں ترنم شامل ہو گیا ، روشنی کی لپٹیں چلی آئیں ؛ دونوں ایک دوسرے میں کھو گئے ؛ ایک بچہ اس دنیا میں لائے ،جو انسان کا سب سے پہلا مختصر افسانہ تھا۔ ’’میں‘‘ اور ’’تو‘‘کے بعد بچہ— ’’وہ‘‘ تھا۔
پھر اس افسانے میں ، مدراس کی گھٹیا تصویروں کی طرح سے ، خواہ مخواہ کی پیچیدگیاں چلی آئیں، ایک اور بچہ چلا آیا۔ پیلا ہابیل تھا تو یہ قابیل۔ دونوں آپس میں لڑنے لگے اور یوں ہی لڑتے جھگڑتے جوان ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے کو مارنے مرنے پر تیار تھے۔ کبھی پیٹ کی خاطر اور کبھی عورت کے لیے ،جو کہ ان کہ ان کی اپنی ہی بہن تھی ؛ آخر قابیل نے ہابیل کو جان سے مار دیا اور یوں انسان کی اولاد ترقی کرنے لگی۔ آدم کے بیٹوں کے مرنے پر اس وقت کی بزرگ عورت نے اپنے قبیلے کے جوان اور خوبصورت بیٹوں کو اپنا شوہر بنایا اور بوڑھے گھوسٹ شوہر کو مار مار جنگلوں میں بھگا دیا۔ یہ شاید تیسرا یا چوتھا افسانہ تھا۔
پھر انسان نے فیصلہ کیا کہ ماں بیٹے یا بھائی بہن کی شادی بقاے نسل کے لیے اچھی بات نہیں۔ جب تک انسانی قافلہ مصر کے دیوتا ’’را‘‘ کی روشنی میں رمسیس (REMSSIS)اول تک پہنچ چکا تھا۔ اُنھوں نے ایسی شادی کی مناہی کے لیے قانون بنائے، جو بہت بعد تک بھی لاگو نہ ہوئے۔ لیکن آخر تسلّط پا گئے۔ انسانی بہتری کے دوسرے قانون اور افسانے جنم لینے لگے۔ پامپائی کی تباہی کے وقت ایڈیپس اور اس کی ماں علاحدہ ہو گئے؛ جب لوٹے تو ایڈیپس جوان ہو چکا تھا اور اپنی ماں کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا، جو روم میں رو رہی تھی، وہ ان عورتوں میں سے تھی جن پر ہمیشہ بہار رہتی ہے ، اوروقت جن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ روم میں دونوں ملے اور ایک دوسرے پر فریفتہ ہو گئے اور آخر شادی کرلی۔ کہتے ہیں کہ ان سے بڑا خوش خور پورے روم میںکہیں نہ تھا۔ لیکن ایک دن، ایک شام(شامت کااسم ِ تصغیر )اُنھیں پتا چل گیا کہ وہ ماں بیٹے ہیں۔ ان کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ انسانی دودھ میں سماجی تیزاب مل گیا اور وہ دونوں اس میں گھل گھل کر رہ گئے۔ اور اس ایک واقعے نے دنیا کے ہزاروں، لاکھوں افسانوں کو جنم دیا ،جن میں انسانی فطرت اور اس کے اپنے بنائے ہوئے قانون میں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ پھر مشرق میں ایک اور عظیم افسانہ لکھا گیا جس کے کردار راجا بھر تری ہری تھے اور ان کی رانی، جو ایک نہایت ہی حسین عورت تھی۔ بھر تری اس کے گداز جسم کی طرف دیکھتے اور سوچتے: کیا ایسا وقت آئے گا جب اس کے چاند سے چہرے پر جھرّیاں چلی آئیں گی؟ چنانچہ کسی ولی نے انھیں ایک سیب دیا اور کہا — ’’اس کے کھانے سے حسن لا زوال ہو جاتا ہے؛ اور انسان لا فانی۔‘‘ بھر تری ہری نے رانی کے حسن کو دوام دینے کے لیے اپنے آپ پر اسے ترجیح دی۔ وہ اس حسینہ کو ہمیشہ عالمِ عالم تاب میں دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن رانی ایک نوجوان دھوبی سے پیار کرتی تھی اور ہمیشہ اسے تندرست اور جوان دیکھنا چاہتی تھی۔ چنانچہ اس نے وہ سیب دھوبی کو دے دیا، جو ایک طوائف پر عاشق تھا اور جو اس کی زندگی میں مسرت کے لمحے لاتی تھی۔ طوائف نے یہ سمجھ کر کہ اس کا جسم گناہ کی کان ہے، وہ سیب بھرتری ہری کی نذر کر دیا کیونکہ وہ حاکم ِ وقت تھا اور اس کے دائم قائم رہنے سے لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا بھلا اور طوائف کے اپنے گناہوں کا کفارہ ہو سکتا تھا— بھر تری ہری نے دنیا ترک کر دی۔
اس کہانی میں کیا کہا گیا؟— کیا یہ کہ وہ شخص جسے ہم اچھا کہتے ہیں، برا ہو سکتا ہے اور جسے برا کہتے ہیں— اچھا؟ یا خالی خولی زندگی کا استہزا اور اس کے چھوٹے ہونے کی دلیل؟ یا یہ کہ ہم کسی کے بدن پر قبضہ کر سکتے ہیں، اس کی روح پر نہیں؟ شرنگارشتک کی عورت اپنے محبوب کے بازوئوں میں بوس و کنار کرتے ہوئے اپنے ذہن میں کسی دوسرے مرد کو رکھے ہوتی ہے… !
چنانچہ پہلی کہانیوں میں اخلاق اور نتیجے پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ آخر انسان نے سوچا کہ ہم بچے تو نہیں جو ایک دوسرے کو نصیحت کرتے پھریں اور یہ کہ کیا آدمی اس طرح کی نصیحت کو پلّو میں باندھتا ہے؟ کون کہہ سکتا ہے؛ حقیقت میرے ہی تسلّط میں آئی ہے؟ چنانچہ انھوں نے تدریس کا کام درس گاہوں، تبلیغ کا مذہبی رہنمائوں کو سونپا اور سیدھی سادی کہانی سے اپنی اور دوسروں کی طبیعت خوش کرنے لگے۔ انسان کے جذبے، اس کی دلچسپی اور گھٹّی میں پڑے ہوئے اس کے تحیّر سے فائدہ اٹھانے لگے۔ جہاں کہانی ان کے لیے تفریح کا سامان تھی، وہاں ریاضی کا ایک سوال بھی، جس کا حل عام عقل کے لوگ نہ جانتے تھے اور کہانی کہنے والا چہرے پر چمک لا کر ایک فتح مندی کے احساس سے سامنے دکھائی دینے والے متحیّر چہروں کا جائزہ لیتا تھا؛ اور آخر اس کا انجام بتاتا تھا۔ اور لوگ حیران ہو ہو جاتے تھے۔ ایسا انجام تو انھوں نے سوچا بھی نہ تھا۔ کون سی کڑیاں تھیں جنھیں وہ سلسلے میں نہ لا سکے؟ کس داو پیچ نے انھیں مارگرایا؟ چونکہ بیوقوف اور فاترالعقل قرار دیے جانا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔اس لیے کہانی میں سے TWISTاور اس قسم کی چیزیں غائب ہونے لگیں۔ اور کہانی کہنے والے کچھ اس انداز سے کہانی کہنے لگے: ’’بھائی، میرے تجربے میں تو یہ بات آئی ہے، تمھارا تجربہ کیا کہتا ہے؟‘‘ چنانچہ اس بے سروپا کہانی کا وجود ہوا جس نے آج تک رسالوں کے ایڈیٹروں کو پریشان کر رکھا ہے۔ وہ یہی سوچتے رہتے ہیں: یہ اسکیچ ہوا یا کہانی؟ اور نہیں جانتے کہ صحافیوں نے کہانی کا دامن کتنا وسیع کر دیا ہے۔ کیونکہ قتل کی واردات کا مِن و عن بیان اور کچہری کی رپورٹ بھی کہانی ہے، لیکن اس بے سروپائی کے باوجود کہانی لکھنے والے کی کہانی ایک صحافی کی کہانی سے یکسر بلند و بالا ہوتی ہے۔
کہانی کی کتنی بھی شکل بدل جائے، کہانی ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر نظم و نسق انسانی جسم کا حصّہ ہیں، وہ گا سکتا ہے اور ناچ سکتا ہے تو ہمیشہ کہانی کہہ سکتا ہے، واقعات کے بیان میں بڑھا سکتا ہے اور گھٹا سکتا ہے…
اوائل کے افسانے کچھ یوں شروع ہوتے ہیں— ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے … ‘‘ ظاہر ہے کہ اس جملے کو ہم اب صرف بچوں پر استعمال کرتے ہیں، بڑے یہ فقرہ استعمال نہیں کرتے— لیکن اس قسم [کے جملوں] کا تاثر برحق ہے… پھر ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے، مگدھ دیش میں ایک راجا تھا۔ اس کی سات رانیاں تھیں؛ اور ساتوں کے اولاد نہیں ہوتی تھی۔ ایک سادھو آیا اور اس نے سب سے چھوٹی رانی (جو کہ خوبصورت اور ترو تازہ تھی) کو ایک آم دیا اور کہا— اسے کھائو گی تو اولاد پائوگی۔ رانی بہت خوش ہوئی۔ اس نے سوچا نہا دھو کر اور صاف ستھری ہو کر آم کھائوں گی اور اس دنیا سے بامراد جائوں گی، چنانچہ آم کو طاق پر رکھ کر وہ غسل خانے میں نہانے گئی اور جب نہا کر لوٹی تو آم غائب تھا۔‘‘
یہ عناصر آج کی ’’ بے سروپا‘‘ کہانی میںبھی ہیں۔ صرف راجا کی جگہ مزدور یا رانی کی جگہ کسی سوسائٹی گرل نے لے لی ہے۔ چونکہ محبت کے اظہار میں چند فقرے بار بار کہے گئے ، اس لیے اب ان کو کہنے کا انداز بدل گیا ہے ۔پہلے چہرہ ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتا تھا؛اب وہ قبول صورت ہو گیا ہے ۔کچھ حقیقت پسند ،یوں لکھتے ہوئے پائے جاتے ہیں—’’وہ اچھی تھی اور نہ بری ۔‘‘لیکن اس میں جو بات کشش کا باعث ہو سکتی ہے، اسے کہے بغیر نہیں رہ سکتے ۔اور جو نفرت کا باعث ہو سکتی ہے،اسے بتائے بغیر بھی نہیں رہ سکتے ۔کوئی کتنا بھی پرانی کہانی سے بچنے کی کوشش کرے؛وہ اس کے بندھے ہوئے اصولوں سے بہت دور نہیں جا سکتا، ورنہ وہ کہانی نہ رہے گی۔ وہ موسیقی ہو سکے گی،نرتیہ ہو سکے گی، نقّاشی ہو سکے گی ،لیکن کہانی نہیں ۔آپ کہانی کی اکائی کو دہائی میں بدل دیجیے لیکن اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ کہانی ایک بنیادی فن ہے جو بڑی محنت اور ریاضت سے ہاتھ آتا ہے اور دھیرے دھیرے آپ کے رگ وپے میں سرایت کر جاتا ہے۔انسانی اساس کااحساس بن جاتا ہے۔ اور جب کہانی کا ترنّم آپ کے بدن میں چلا آئے تو آپ کو سڑک کے ہر کونے کھُدرے میں کہانیاں پڑی ہوئی ملیںگی۔آپ کہانی کو نہیں ڈھونڈیں گے ،کہانی اٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے، سوتے جاگتے آپ کوآلے گی : اس عورت کی طرح ،بچہ اس دنیا میں لائے بغیر جس کا جینا بے معنی اور لاحاصل ہے!
1 تبصرہ:
واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے ،لاجواب ،بہت شکریہ جناب تنصیف حیدرصاحب بذریعہ رفاقت حیات ،آپ سلامت رھیں
ایک تبصرہ شائع کریں