جمعہ، 11 دسمبر، 2015

قاسم یعقوب کے تین مضامین

قاسم یعقوب بیک وقت اچھے نقاد بھی ہیں اور اچھے شاعر بھی۔ریختہ کے لیے ایک زمانے میں جب میں نے ان کی غزلیں منگوائیں اور پڑھیں تو حیران رہ گیا کہ وہ کتنی اچھی غزلیں کہتے ہیں۔مجھے تو بے حد پسند آئیں، منفرد بھی لگیں۔ان کی ادارت کا لوہا تو لوگ 'نقاط' جیسے اہم رسالے کی وجہ سے مان ہی چکے ہیں۔وہ نظموں کی پس ساختیاتی تنقید کے حوالے سے ایک الگ اور مزید پہچان رکھتے ہیں،مگر مجھے ان کی یہ پہچان کوئی خاص پسند نہیں،مجھے تو ان کا خلاقانہ اظہار شعر بہت اچھا لگتا ہے، لیکن اس سے ان کی تنقیدی بصیرت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ ایک پڑھے لکھے اور غور و فکر کی اہمیت سمجھنے والے قاری کی حیثیت سے ہمارے درمیان موجود ہیں اور ان کے اتفاقات و اختلافات ہم سب کو بھی سوچنے سمجھنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ذیل میں ان کے تین مضمون ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے 'تنقید کی شعریات' سے پیش کیے جارہے ہیں۔اس کتاب کے بیشتر مضامین میں نے پڑھے ہیں۔یہ ان کی محبت ہے کہ انہوں نے مجھے یہ اہم کتاب عنایت کی، جس سے میں ان کے تنقیدی ذہن کو سمجھنے پرکھنے کے لائق ہوا۔یہ کتاب اچھی تنقید پڑھنے والے ہر اردو داں شخص کو پڑھنی چاہیے کہ اس سے علم کے ساتھ ساتھ غور کرنے کے صلاحیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
زیر نظر تینوں مضامین میں پہلا مضمون اردو شاعری پر جنگوں کے اثرات کے تعلق سے ہے، جس میں نتیجتا یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اردو کا شاعر ابھی اس صلاحیت سے عاری ہے کہ جنگ اور انتشار جیسے ماحول میں ، جو کہ میرے خیال میں تخلیقی تحرک کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتے ہیں، کوئی فائدہ اٹھا سکے۔قاسم یعقوب نے بڑی گیرائی سے اس مسئلے کا جائزہ لیا ہے اور تاریخ اور ادب کے مطالعے سے اردو والوں کی اس کمزوری کی نشاندہی بھی کی ہے اور اس کی وجوہات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔دوسرا مضمون نہایت دلچسپ ہے، اس مختصر سے مضمون میں ادب سے ہماری دوری اور ذہنوں پر اس کے پڑنے والے اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ نصاب، ادب اور سماج ان تینوں کڑیوں کو جوڑنے کے صحیح طور طریقے کی جانب بھی اشارہ اس مضمون میں کیا گیا ہے۔میراجی کے تعلق سے قاسم یعقوب کے مضمون سے مجھے بہت حد تک اختلاف ہے، مگر یہ مضمون اتنا کسا ہوا ہے، لسانی سطح پر بھی اور فکری سطح پر بھی، کہ اس کو اپنے انتخاب میں جگہ دیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔میں چاہوں گا کہ ہمارے دوست اور ادبی دنیا کے تمام قارئین کھل کر ان مضامین پر اپنی رائے کا اظہار کریں۔تاکہ بات نکلے، دور تک جائے کیونکہ ابھی نہ زباں پہ مہر لگی ہے، نہ انگلیوں کو خون دل میں ڈبونے کی ضرورت ہے۔بس ذہن پر ہلکی سی دستک دینی ہے۔شکریہ! (تصنیف حیدر)
***

جنگوں کے اثرات سے اُردو شاعری کی نفسیاتی تشکیل

جنگ ہمیشہ سے انسانی معاشرت کا اہم جزو رہی ہے۔ معرکۂ خیر وشر انسانی تاریخ کے ہر دَور میں مرکزی سرگرمی کے طور پر انسانی معاشروں میں موجود رہاہے، البتہ اس کی نوعیت میں فرق آتا رہا۔ جنگلی دور میں (جب انسان غاروں اور جنگلوں میں غیر معاشرتی زندگی گزار رہا تھا) آپس کے غیر منطقی تفرقوں میں بٹا ہوا تھا ،تب چھوٹے چھوٹے بنیادی مسائل کی عدم تکمیلیت کی بناء پر ایک دوسرے کا دشمن بن جاتا، اس دَور میں نظرےۂ حیات یا نقطۂ نظر کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ زندگی کے بنیادی لوازمات کی رسائی میں جب دوسرا انسان دخل اندازی کرتا تو شدید مزاحمت کا اظہار کیا جاتا جو بعض اوقات عسکری ردّعمل میں ڈھل جاتا۔
رفتہ رفتہ انسان زندگی کے بار ے میں واضح مؤقف رکھنے لگا۔ اب لڑائی یا غلبہ پانے کی جبلّی آرزو، اجتماعی مقاصد کے ساتھ پیوستہ ہو گئی۔ یہ دَور زراعت کا ہے جو مختلف قبائل میں بٹا ہوا ہے۔ ایک قبیلہ رنگ اور خون کے رشتوں سے ایک دوسرے سے مختلف سمجھاجاتاہے۔ ایک قبیلے کی جنگ اپنے سماجی، معاشرتی اور بقائے حیات کے تحفظ کے لیے لڑی جاتی۔ ایک قبیلے کے مرد نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قبیلے کا ساتھ دینے کی وجہ سے دوسرے فریق سے لڑتے۔ گویا اُن کے نظریات کی سمت نمائی ان کے اپنے خیالات یا ذات متعیّن نہیں کرتی بلکہ وہ اپنے معاشرے کی ایک اکائی کے طور پر کام کر رہے ہوتے۔
زرعی دور سے گزرنے کے بعد،صنعتی دور میں زندگی کا رنگ ڈھنگ بہت حد تک مختلف اور پیچیدہ بن گیا۔ گروہ یا قبائل قوموں میں تبدیل ہو تے گئے۔ کوئی نظرےۂ حیات کے تابع اکٹھے قوم بن گئے، کوئی جغرافیائی حدود میں سمٹ کے اپنے اپنے تحفظات کا اعلان کرنے لگے۔ مگر اس اَمر سے انکار ممکن نہیں کہ ہر دَور میں لڑائی انسانی معاشروں کا جزوِ لاینفک بن کے مرکزی سرگرمی کے طور پر موجود رہی۔ اسی طرح ایک قوم یا گروہ دوسری قوم کے ہاتھوں نیست و نابود ہوتا رہا۔ ایک دوسرے کے کلچر کے ماتحت آ گیا یا غلام بن کے مختلف طبقات میں تقسیم ہو گیا۔
الہامی صحائف میں ،گو کہ ایک قوم کی بربادی اُس کی اخلاقی پستی اور احکامِ الٰہی کے دئیے گئے اصولوں کی نافرمانی سے ہوتی مگر جہاد،جنگ اور مقابل گروہ پر غلبہ پانے کو بہتر عمل قرار دیا گیا۔غلبہ پانے سے بہت سی طاقت ایک ساتھ دسترس میں آجاتی۔ یہ تبدیلی یقیناًمثبت شکل میں سامنے آتی کیونکہ غلبہ پانے والی قوم زیادہ طاقت ور اور معاشرتی حوالے سے زیادہ بہتر ہوتی یا بن جاتی۔ تاریخ کے صفحات میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے نام پر بھی غالب قوم نے ہمیشہ مفتوح قوم کو اپنا کلچر اور تہذیب عطا کی۔
ادب کا تعلق بھی انسانی تہذیب کے اُن ایام سے ہے جب زبان کی تعمیر ابھی اپنے تشکیلی مراحل میں تھی۔ گویا ادب اور جنگ ہمیشہ ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں۔ دنیا کا بیشتر ادب جنگی اثرات کا براہِ راست عکاس رہا ہے بلکہ قدیم ادب کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کے ادبی اظہار کا بڑا محرک جنگی حالات کے اثرات ہی تھے۔یہ حالات اپنے علاقے چھن جانے کے المیے،اپنے مر جانے والے لوگوں کے ماتم ،یا نئی زندگی کی تمنا کی شکل میں ظاہر ہوتے۔ قبلِ مسیح ادب میں بڑے بڑے رزم ناموں/ رزمیہ نظموں کا پتہ چلتا ہے۔ شاید یہ انسانی نفس کا بے قابو نفسیاتی عمل ہو! انسانی عمل اور ادبی تخلیقی سرگرمی دونوں کے طور پر ایک مجبور اور لاشعوری فطری اظہار ہو!!
ساجدہ زیدی نے فرائڈ کے ’’نظرےۂ ایروس اور تھینٹوس‘‘ پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’قوتِ حیات کی طرح خواہشِ مرگ بھی اپنے اظہار کے لیے بے شمار بالواسطہ اور علامتی راہیں تلاش کرتی ہے۔ چنانچہ ہماری عام زندگی کے بہت سے افعال میں قوتِ مرگ کی کارفرمائی ہوتی ہے، جن میں قتل و غارت گری اور خودکشی سے لے کر، جارحیت اور عام انسانیت کش رویوں تک سب ہی شامل ہوتے ہیں۔۔۔ چنانچہ جس طرح افراد کی زندگی کے بے شمار رویے اس قوت کا اظہار ہوتے ہیں اسی طرح قوموں اور مملکتوں کی زندگی میں بھی ہوتے ہیں۔ یہ قوت قوموں میں جنگ، غارت گری اور سیاسی جارحیت کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ قتلِ عام، دوسری قوموں کے حقوق غصب کرنے کی خواہش، تمام قسم کے آلاتِ حرب کی دریافت، اور اُن کی افزونی مزدوروں، غریبوں اور بے کسوں کا استحصال، حد سے سوا منافع خوری اور اپنی انتہا کو پہنچ کر ایٹمی اور پھر نیوکلےئر آلاتِ حرب کی دریافت اور قیامت یہ ہے کہ ان کا استعمال اور اسی نوع کے بے شمار، منفی رویوں اور تخریبی قوتوں کا وجود آخر کس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے؟‘‘(۱)
گویا تاریخ اور ادب ایک دوسرے پر غیر شعوری طور پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ تاریخ کا بڑا حصہ جنگ و جدل اور مختلف اقوام کا ایک دوسرے پر غلبہ پانے کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے۔
ادب میں ’’رزمیہ‘‘ لفظ مخصوص معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ رزمیہ شاعری کسی قوم کی تہذیبی روح کی امین ہوتی ہے۔ رزمیہ محض جنگ کے آنکھوں دیکھے حالات کی عکاس نہیں ہوتی بلکہ اپنے اُسلوب میں پُروقار معنویت رکھتی ہے، جس میں کسی قوم یا ہیرو کے شجاعانہ کارناموں کو قلم بند کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس رزم نامے جنگوں، معرکوں اور لڑائیوں کا بیانیہ اظہار ہوتے ہیں۔ جنگی پس منظر میں ابھرنے والی شاعری کے لیے مرثیہ، ترانہ،رجز، شہر آشوب اور اسی طرح کی اور اقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ مرثیہ مرے ہوئے شخص کا اوصافی نوحہ ہوتا ہے۔ اُردو میں یہ نظم حضرت امام حسینؓ اور اُن کے ساتھیوں کی اَلم ناک شہادت کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اُردو شاعری میں ڈرامائی عناصر کی آمیزش پہلی دفعہ ،مرثیہ کے ذریعے آئی۔مگر مرثیہ’’ایپک‘‘ یا رزم نامہ نہیں کہلایا جا سکتاکیوں کہ اس میں بہت محدود سطح پر رزمیہ عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔
ساگا (Saga) کی اصطلاح، عموماً نثری سرمایے کے لیے وقف رہی۔ آئس لینڈ اور ناروے میں لکھی گئی سوانح عمریوں اور کہانیوں کو ساگا کہا جاتا، جس میں قوم / قبیلے کے ہیروز کو اُن کے کارناموں کے ساتھ قلم بند کیا جاتا۔ گویا ہر قوم کے تخلیقی ادب نے اپنے جغرافیائی اور نظریاتی حدود کے پاسبانوں کو اپنے اپنے مخصوص انداز میں مخصوص ادبی ہےئتوں میں خراجِ تحسین پیش کیا ، جو ’’رزمیہ‘‘ کے نام سے یادگارہے۔’’شہر آشوب‘‘ اگرچہ جنگ کی نسبت ابتری کی عکاسی کرتی ہے مگر اُردو میں لکھے جانے والے شہر آشوب زیادہ تر اُن سماجی حالات کے عکاس ہیں جو مختلف گروہوں کے درمیان ہونے والی جنگوں،جھڑپوں اور لڑائیوں کے بعد سماجی ابتری کی صورت میں ظاہر ہوتے۔لہٰذا ان کا مطالعہ بھی خطے میں ہونی والی جنگوں کے شاعری پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
عالمی ادب میں ایک نظر دوڑانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بڑے ادب میں ’’رزمیہ‘‘ موجود ہے۔ یونان میں اوڈیسی اور ایلیڈ، ایران میں شاہنامہ فردوسی، ہندوستان میں مہابھارت اور رامائن، انگریزی میں فیری کوئین اور پیراڈائز لاسٹ وغیرہ۔ خیروشر کے معرکے اور مقامی جنگ و جدل کے تاریخی حقائق ان ’’رزمیوں‘‘ میں ایسے پیوست ہیں کہ ان کے بغیر ادب کی شان و شوکت ختم ہو کے رہ جائے۔ ان رزمیہ نظموں نے ادب کی تخلیقی جہات کو جس قدر متاثر کیا، ایسا اثر دیگر تحریکوں میں ناپید ہے۔ لفظوں کا انتخاب، خیال کی بلندی، جملوں یا مصرعوں کی بست و کشاد، المیہ، آغاز و انجام وغیرہ محض ادبی فن پاروں کو مالا مال نہیں کر رہے تھے بلکہ اہم معاشرتی سرگرمی کے طور پر بھی زندہ تھے۔ مثلاً ہومر اور ورجل کا ادبی کام عوام میں بے انتہا مقبول تھا۔ ہومر کی اوڈیسی اور ایلیڈ تو تخلیق کے بہت بعد احاطۂ تحریر میں لائی گئیں، ایک عرصے تک یہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔
قدیم ترین رزمیہ نظموں میں ’’مہا بھارت، رامائن‘‘ اور ’’اوڈیسی، ایلیڈ‘‘ دو علاقوں کے تہذیبی ورثے کی شناخت بھی ہیں۔ رامائن رام چندر اور سیتا کے لازوال عشق کی داستان ہے۔ راون کی استبدادی دخل اندازی بھی سیتا کی محبت کو ختم یا کم نہ کر سکی۔ اس میں مشرقی عورت کی لافانی اطاعت گزاری کا مرقع پیش کیا گیا ہے جو اس خطے کے عوام کا آج بھی تہذیبی ورثہ ہے۔ رامائن میں قتل و غارت کا بازار اُس وقت سجتا ہے جب رام چندر سیتا کو چھڑانے کے لیے لنکا پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہ لڑائی اُس دَور کی بھی عکاسی کرتی ہے جب آریوں نے برصغیر میں داخل ہو کے یہاں کے مقامی دراوڑوں کو قتل کرنا شروع کر دیا اور جنوبی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ’’مہابھارت‘‘، چترویریا کے دو بیٹے ’’دھرت راشٹر اور پانڈو‘‘ تھے۔ ان کی اولادوں کو تاریخ میں بالترتیب کوروؤں اور پانڈوؤں سے یاد کیا جاتا ہے۔ پانڈو زیادہ ذہین اور حکمرانی کے اہل تھے، لہٰذا ایک ہی خون آپس میں لڑنے لگا۔ کوروؤں نے پانڈوؤں پر شدید ظلم و ستم کیا۔
اوڈیسی اور ایلیڈ دراصل ایک ہی جنگ کی دو اقساط ہیں۔ ’’ایلیڈ‘‘ نظم کا مرکزی قصہ ’’ٹرائے‘‘ کی جنگ پر مشتمل ہے، جو ’’وینس‘‘ کے ’’مینی لوس‘‘ کی بیوی سے عشق کی صورت میں شروع ہوتی ہے اور نو سال کے طویل عرصے تک جاری رہتی ہے۔ اس جنگ کی فتح کے بعد جب یونانی قافلہ واپس آنے لگتا ہے تو واپسی پر ’’اوڈی سس‘‘ گم ہو جاتا ہے۔ ’’اوڈی سس‘‘ کا واپس یونان تک کا سفر کن کن مراحل سے گزرا، یہ تمام قصہ ’’اوڈیسی‘‘ کا مرکزی موضوع ہے۔ دیوتاؤں کا ذکر دراصل خیروشر کی طاقتوں کا ذکر ہے۔ محاذ آرائی، جنسی کشش اور سمندر کے پانی پر اعصاب شکن طویل سفر ’’اوڈی سس‘‘ کو ایک سورما کے روپ میں دکھاتا ہے۔ ایلیڈ سے زیادہ اوڈیسی ’’رزمیہ‘‘ مزاج کی نزاکتوں اور جذباتیت کو سمیٹے ہوئے ہے۔
عالمی ادب کے بعد جب ہم اُردو شاعری کو طویل تاریخی منظر نامے میں دیکھتے ہیں تو وہ ایسی بے مثال اور لازوال تخلیقی فن پاروں سے محروم ہے۔ اُردو شاعری چونکہ برصغیر کے اُس دور میں ارتقاء اور عروج حاصل کرتی ہے جب مسلمان یہاں وارد ہوتے ہیں، یہ دَور طویل اور مسلسل جنگ و جدل کے باعث بنا رہا مگر یہ حیران کن بات ہے کہ اُردو شاعری میں رزمیہ اور رزم ناموں کی بہت کم تعداد سامنے آئی۔اور جو ہے وہ فکری اور فنی حوالے سے اتنی شاندار نہیں کہ عالمی ادب کا حصہ بن سکے۔
اُردو رزمیہ شاعری کسی لازوال رزمیہ نظم کی تخلیق کے بجائے محض بدامنی اور واقعاتی عکس بندی تک کیوں محدود رہی؟ اِس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جنگوں کی نوعیت کسی بڑے منظرنامے کی تبدیلی کا باعث بننے کی بجائے محض انتشار، بدامنی اور اقتدار کی خودغرضانہ خواہشوں تک رہی۔ نظریہ کا فقدان، درباری کلچر اور عوامی کلچر میں بُعد، اور کسی بڑی جنگ کے واقعاتی عناصر کی عدم دستیابی بھی اس کی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اُردو قومی یا ملکی سطح کے تاثرات کو کلّی سطح پر احاطۂ اظہار میں لا رہی تھی، جس میں درباری نظریات غلبہ پاتے رہے۔ جبکہ علاقائی زبانیں مقامی کلچر میں پیوست ہونے کی وجہ سے جزوی سطح (Micro) کے نظریات کے تحفظ کی امین بنتی رہیں۔ پچھلے صفحات میں ہم علاقائی زبانوں کے ادب میں رزمیہ شاعری کی کھوج میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ نظریہ نہیں بلکہ کلچر کی جنگ ہر علاقائی زبان کو متاثر کرتی ہے۔ حتیٰ کہ کلچر کے نام پر نظریہ بھی تقسیم ہوتا رہا، جیسا کہ بلوچی شاعری میں نظر آتا ہے۔
جنگ میں پروان چڑھنے والے شاعر کبھی بھی اس کے اثرات سے باہر نہیں نکل پاتے۔ یہ نفسیاتی کیفیت ہر اُس بچے کا پیدائشی عارضہ بن جاتی ہے جس نے بچپن میں جنگ کو قریب سے محسوس کیا ہو۔ اُردو شاعری میں دکنی عہد کے شعرا حسن شوقی، نصرتی، مرزا مقیم وغیرہ نے جنگوں کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا۔ نصرتی کی سلاطینِ دکن کے دربار میں کافی رسائی تھی، جو تمام جنگی واقعات کا چشم دید گواہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’علی نامہ‘‘ اور ’’تاریخِ اسکندریہ‘‘ دکنی عہد کے کامیاب رزم نامے ہیں۔ جنگ کی نفسیاتی کیفیات بھی عجیب ہوتی ہیں۔ ’’ہیمنگوے‘‘ کے ایک ناول ’’وداعِ جنگ‘‘ (Farewell to Arms) میں مس بارکلے اور مصنف کے درمیان گفتگو میں ’’مس بارکلے‘‘ اپنے محبوب کے متعلق بتاتی ہے:
’’یہ چھڑی اُس لڑکے کی ہے جو پچھلے سال لڑائی میں مارا گیا۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ بڑی افسوس ناک بات بتائی آپ نے۔‘‘
مس بارکلے کہنے لگی، ’’یہ بہت اچھا تھا۔ ہم دونوں کابیاہ بھی ہو جاتا ہے لیکن سوّے کی لڑائی نے اسے مجھ سے چھین لیا۔‘‘
وہ کہنے لگی،
’’ابھی میں نے سولہویں سال میں قدم رکھا ہی تھا کہ میں نے نرسنگ شروع کر دی۔ اس نے اور میں نے اکٹھے کام شروع کیا تھا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں میں ایک بڑے احمقانہ خیال کو پال رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے ہسپتال میں آئے گا۔ میں سوچتی تھی کہ اس کے ماتھے پر تلوار کا زخم ہو گا اور پٹی بندھی ہو گی۔ کبھی کبھی یہ خیال کچھ تبدیل ہو جاتا اور میں سوچنے لگتی کہ اس کے کندھے میں گولی لگی ہے اور میں اس کے سرہانے بیٹھ کر مرہم پٹی کر رہی ہوں۔ آپ ایسے تصورات سے واقف ہیں؟ کچھ دلآویز روحانی سی چیز۔۔۔‘‘(۲)
جنگ کے اثرات کس طرح غیر شعوری طور پر حقیقت سے خوابوں تک کا سفر کر جاتے ہیں، ’’مس بارکلے‘‘ مکمل طور پر جنگ کے زیرِاثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی محبت بھی بارود بھرے جذبات سے ممیّز ہے۔
نصرتی نے جنگ کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ نصرتی کی شاعرانہ فنی جمالیات نے اُس کی مثنویوں ’’علی نامہ‘‘ اور ’’تاریخِ اسکندریہ‘‘ میں جوہر دکھائے ہیں۔ دکن میں بہت سے شاعروں سے رزمیہ مثنویاں منسوب ہیں مگر کوئی مثنوی بھی کسی بڑے رزمیہ موضوع کو سمیٹے ہوئے نظر نہیں آتی۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کی عکس بندی دربار سے منسلک ہونے کی وجہ سے ہو جاتی تھی۔ بعض اوقات شاعر کو بادشاہِ وقت سے فرمائش آتی کہ فلاں جنگ کا احوال لکھو۔ کچھ ایسی مثنویاں بھی ملتی ہیں جو مذہبی جذبات کی آسودگی کے لیے لکھی گئیں، جنہیں رثائی مثنویاں کہا جا سکتا ہے۔ حضرت علیؓ اور حضرت امام حسینؓ سے والہانہ عقیدت کو ان مثنویوں کا موضوع بنایا جاتا۔ ’’خاور نامہ‘‘ از رستمی ایسی ہی ایک طویل اور وفورِ جذبات سے بھرپور مثنوی ہے۔ دکن کے بعد اُردو شاعری کی توانا روایت جب شمال کی طرف ہجرت کرتی ہے تو یہاں انتشار اور بدامنی کا دَور شروع ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات (۱۷۰۷ء) کے بعد پورے برصغیر کا سیاسی نقشہ بدل جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خطے میں قتل و غارت کا بازار گرم ہو جاتا ہے جو انگریزوں کے برصغیر پر مکمل غلبے تک جاری رہتا ہے۔
۱۷۰۷ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک ایک طویل دَور ہے جس میں جنگ (War) کا تصور (Concept) تو مکمل طور پر نظر نہیں آتا مگر جھڑپیں، لڑائیاں اور حملوں کی کثرت جنگی فضا ضرور تیار کر دیتے ہیں۔ شمال میں چھوٹی چھوٹی تہذیبیں بکھری ہوئی اپنے اپنے مخصوص علاقوں میں محدود ہیں، لہٰذا اُردو شاعری کے موضوعات بھی مخصوص عسکری واقعات کو پیش کر رہے ہیں۔ شہر آشوب، ہجو نگاری، حکومتی انتظامات پر طنز، ناپائیداری، بے سکونی، انتشار اور اس قسم کے دیگر کئی موضوعات ان ڈیڑھ سو سالوں کے محبوب موضوع ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس پوری فضا نے رزمیہ نظموں کی تخلیق میں تو مدد نہ دی مگر اضطراب، شکستِ آرزو جیسے موضوعات اپنی مخصوص فضا اور منتخب شدہ الفاظ (Dictionary) کے ساتھ اُردو شاعری کا حصہ بنے۔
یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ مغلیہ عہد میں قومیت کا مجموعی تصور ناپید ہے۔ برصغیر بھر کے نواب اپنے اپنے علاقوں کے سیاسی، معاشی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ مرکز سے غرض کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات کسی علاقے کا امیر مرکز سے غداری کر دیتا ہے اور یوں وہ اپنی الگ سلطنت کا اعلان کر کے امورِ سلطنت چلانے لگتا ہے۔ یعنی مرکز اور مرکزی فکر کا تصور مکمل ناپید ہے۔ کچھ اغراض اور طاقت کے رعب کے ماتحت امیرانِ علاقہ مرکزی حکومتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔اس قسم کے تصورِ قومیت کے اُردو شاعری پر شدید اثرات تھے جو ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد بالکل بدل جاتے ہیں۔ قوم واضح طور پر نظریاتی بنیادوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ علاقے، کلچر اور سیاسی اغراض پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ مسلمان اور ہندو دو قومیں بن کر سامنے آتے ہیں۔ انگریز ایک تیسرا فریق ہے جو حاکم ہے مگر بدیسی امورِ سلطنت کے ساتھ واضح تفریق رکھتا ہے۔ یوں قوم اور اُس کی نظریاتی بقا کو پہلی دفعہ برصغیر میں اُجاگر کیا گیا۔ اس ساری صورتِ حال کو اُردو شاعری نے نظریاتی مقدمہ بنا کر پیش کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ کے حوالے سے اُردو شاعری انگریز سے نفرت کا اعلان کرتی ہے۔ نئی تہذیب اور نئے فکر و احساس کی نوید دیتی ہے۔ سر سیّد تحریک کے زیرِاثر اُردو شاعری کا نیا ڈرافٹ (Draft) تیار کیا جاتا ہے۔ حقیقت نگاری (Realism) نے سماجی انتشار کو نئے زاویے سے دکھانے اور سوچنے کا انداز دیا۔
دوسری طرف پاکستانی علاقائی زبانوں میں اُردو سے قدرے مختلف رزمیہ نظموں کا سراغ ملتا ہے۔ شاعر اپنے کلچر سے مقامی سطح سے اس قدر جڑا ہوا ہے کہ وہ ثقافت میں موجود قدروں کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتا۔ پنجابی رزمیہ شاعری میں راجہ جیمل کی داستان ہندومسلم نزاع کی بجائے غیرت کے نام پر قربانی کی کہانی ہے۔ راجہ جیمل کی بیٹی سے جب اکبر بادشاہ شادی کی فرمائش کرتا ہے تو راجہ جیمل سیخ پا ہو جاتا ہے اور اُس سے اس بے غیرتی کا بدلہ لینے کے لیے لڑنے کا عہد کرتا ہے۔ راجہ کے ساتھ اُس کا بھائی فتح جنگ بھی اُس کا ساتھ دیتا ہے اور لڑتے لڑتے، اکبر کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے، دونوں بھائی جان دے دیتے ہیں۔
راجہ جیمل اکبر کو کہتا ہے کہ ’’کیا تم نہیں جانتے کہ ہم ہندو ہیں اور تم مسلمان۔ ہمارا تمہارا زمین آسمان کا فرق ہے۔‘‘ یہ فرق کوئی نظریاتی فرق نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ علاقائی غیرت کا جذبہ پنہاں ہے جسے اکبر بادشاہ نے تار تار کر دیا ہے۔ دونوں بھائی اُسی کلچر کو بچانے کے لیے جان کی بازی ہار دیتے ہیں۔
پنجابی کی دوسری ’’واروں‘‘، جن میں ’’دُلّا بھٹی‘‘ بہت مشہور ہے، میں بھی مقامی ثقافت خوبصورت انداز سے جلوہ گر ہے۔ پشتو، سندھی اور بلوچی شاعری میں قبائلی کلچر نمایاں ہے۔ اپنے اپنے قبیلے کی فتح کے لیے شاعرلفظوں کی تمام شان و شوکت کمال فنی سحر سے جوڑتا ہے۔ مقامی ثقافتوں کا اظہار جیسے بدلے کی روایت، قول نبھانے کی روایت، مہمان نوازی، دشمن سے سلوک، بہادری کے اوصاف، سورماؤں کا مرتبہ وغیرہ جغرافیائی خدوخال کے ساتھ نظموں میں جگہ بناتے ہیں۔ علاقائی زبانوں کا جنگی ادب پڑھتے ہوئے ہم ثقافتوں کی خوبصورت قدروں اور رسم و رواج کا بھی ذائقہ محسوس کرتے ہیں، جن کی گھلاوٹ سے جنگی واقعات، ہیروز کا مقام اور نظموں کی فنی سطح کا ادراک محصور کن کیفیات کو جنم دیتا ہے۔ مقامی زبانوں کا رزمیہ ادب آج بھی دیہاتوں کی چوپالوں میں گا کے سنایا جاتا ہے۔ ہر نئی نسل اس ورثے کو پہلی نسل سے سینہ بہ سینہ وصول کرتی آ رہی ہے۔
اُردو کے تاریخی مطالعے کے بعد جب ہم پاکستانی دور میں پہنچتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کے وقت جس قومیت کا احساس پورے برصغیر کے عوام کو ہوا تھا جس میں ہندو اور مسلم دو قوموں کے احساس نے پورے خطے کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔ ۱۹۴۷ء کی تقسیم کے بعد یہی احساس اب جغرافیائی حدود کے تحفظ کے نئے احساس کی آمیزش سے ظاہر ہوتا ہے۔ دو قومیں دو ملکوں میں تقسیم ہو چکی تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان دو خون ریز جنگوں نے نظریوں اور جغرافیائی کلچر کے نئے احساس کو شدید ضربیں لگائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا شاعر اب اسی احساس کے ساتھ شاعری پیش کرتا ہے۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے پسِ منظر میں جس طرح دشمن پر غلبہ پانے کی آرزو اُردو پاکستانی شعرا کی نظموں/ غزلوں میں موجزن ہے، اس طرح کا انداز اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔
جنگی ترانے، عسکری فتوحات، جہاد کے نعرے اور مذہبی مشاہیر کی یادیں ہر شاعر کے ہاں نظر آتی ہیں۔ گویا مشترکہ کلچر، ثقافت اور اس معرکے کے پسِ منظری محرکات کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ہر حال میں غلبہ ہی نظموں کا مرکزی موضوع نظر آتا ہے۔ چونکہ یہ سارا ادب ہنگامی اور وقتی نوعیت کا تھا اس لیے نظموں کی فنی حیثیت بھی ٹشوپیپر کے استعمال کی طرح کچھ دیر تک ہی رہی۔
۱۹۷۱ء کی جنگ دراصل طویل عرصے تک پھیلی وہ صورتِ حال تھی جس میں ایک دفعہ پھر زبان، کلچر اورجغرافیائی سالمیت کے مباحث چھڑ گئے تھے جو رفتہ رفتہ بڑھتے بڑھتے اس نہج پر آ گئے کہ ’’اُدھر تم اور اِدھر ہم‘‘ جیسے نعرے دو حصوں کو دو ملکوں میں تقسیم کرنے پر تیار ہو گئے۔ اس سلسلے میں ہماری سیاسی قیادت (جو فوجی وردی میں تھی) پورے معاملے کو ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔ یوں ملک دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا۔ یہ محض سیاسی جنگ نہیں تھی بلکہ ایک اعصاب شکن عرصے سے گزر کے یہ سانحہ مکمل ہوا۔ پاکستان، جو مشرقی اور مغربی حصوں پر مشتمل تھا، بھارت کے ساتھ کئی روز تک معرکہ آرائی میں مشغول رہا۔ بھارتی افواج نے شہروں پر گولے برسائے اور ہر وہ قدم اٹھایا جو کسی جنگ میں ناگزیر عمل بن جاتا ہے۔
جب ہم اُردو شاعری کے اس دور کا مطالعہ کرتے ہیں تو شاعر ایک دفعہ پھر جنگ اور اس سے پیدا شدہ صورتِ حال کا مشاہدہ کرنے کی بجائے ظاہری جذبات کا اظہار کرتا نظر آتا ہے۔ حکمرانوں نے بنگلہ دیش کے قیام کو سقوط کا نام دیا۔ بنگالیوں کی سازشوں اور بھارتیوں کی عسکری مداخلت کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا اور ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کہہ کے نئے عزم اور نئی توانائیوں کے ساتھ نئی زندگی کے آغاز کا خواب دکھایا گیا۔ اُردو شاعری میں انہی خیالات کی گونج ملتی ہے۔ شعرا نے اس پوری فضا کو ایک افسوس ناک کیفیت سے آگے بڑھ کر دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ اس فضا سے نکلنے کے لیے نئے عزم کی تعمیر کا درس دیا گیا۔ گویا جو مملکت کے مقاصد تھے وہ ۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی دونوں جنگوں میں شعرا نے پورے کئے، اپنا نظریہ (Stance) کہیں نظر نہیں آتا۔ ۱۹۷۱ء کے حوالے سے کچھ شعرا نے جنگی واقعات کو بھی منظوم کیا ہے مگر وہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ قیدیوں کی واپسی کے لیے دعائیں مانگی جا رہی تھیں اور اُن کی وطن واپسی پر جذباتی اور سستے خیالات سے مملو نظموں کے انبار لگا دئیے گئے۔ اسی تناظر میں کچھ شعرا نے شدید ردّعمل کا اظہار کیا۔ فوجی حکمرانوں اور فوج کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ سیاسی قیادت، جو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو کے پاس تھی، بھی موردِ الزام ٹھہرائی گئی۔ مگر ایسے خیالات بھی منطقی کم اور نعرہ بازی کے زمرے میں شمار دکھائی دیتے ہیں۔
۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگوں کے پسِ منظر میں تخلیق شدہ اُردو ادب کسی بڑی فکری تحریک کو جنم دینے سے قاصر نظر آتا ہے۔ ادبی سطح پر بھی ان نظموں کی فنی حیثیت بہت کم زور اور جمالیاتی پختگی سے عاری دکھائی دیتی ہے۔ لہٰذا کسی بڑے رزم نامے اور رزمیہ کی تخلیق کی تلاش کارِ عبث ہے۔
پاکستانی اُردو شعرا نے دنیا کے دیگر ممالک کے درمیان چھڑی جنگوں پر بھی اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً ہر دور کے ہر قابلِ ذکر شاعر کے ہاں کسی نہ کسی جنگ پر ادبی اظہار فنی پیرائیہ میں نظر آتا ہے۔ خصوصاً افغان امریکہ جنگ اور عراق امریکہ جنگ، جو حال ہی میں انسانیت کش مناظر کے ساتھ وقوع پذیر ہوئیں، ابھی تک ہمارے شعرا کے اعصاب پر چھائی ہوئی ہیں۔ تیل کی تلاش میں کس طرح نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، غریب اور زندگی کی بنیادی قدروں سے محروم عوام کو بموں اور بارود کے تحفے دے کر اُن کی زندگیوں کے چراغ گل کئے گئے۔عراق اور افغانستان گزشتہ چھ، سات سالوں سے امریکی جارحیت کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ ان جنگوں کے خلاف دنیا بھر سے نفرت بھرے جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر کے ادب میں ان غیر انسانی کارروائیوں کے خلاف لکھا گیا۔ ہیرلڈ پنٹر (نوبل انعام ۲۰۰۵ء) نے اپنی مختصر سی نظموں کی کتاب ’’جنگ‘‘ (War) میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
جنگ اور زندگی کی خواہش دو ایسی سرحدیں ہیں جن کی تقسیم خون کی ندی کرتی ہے۔آج کے دور میں جنگ نے ہماری زندگیوں کو حیران کن حد تک متاثر کیا ہے۔ہمارے شب وروز،ہماری اقتصادیات اور ہماری زبان تک جنگ اور اس کے مضمر اثرات سے بچ نہیں پاتی۔ادب کا بڑا حصہ بھی براہِ راست اور بالواسطہ جنگ سے اثر انداز ہو رہا ہے۔یہاں کیرل کوہن کا ایک منفرد اور دلچسپ مضمون ’’عسکری اصلاحات اور جنسیات ‘‘جس کا اُردو ترجمہ مسعود اشعر نے کیا ہے ،کا حوالہ دینا بے جا نہ ہو گا:
’’روزمرہ کی زبان استعمال کر کے خود جنگی ماہرین بھی اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ایٹمی ہیڈ کو بلا اجازت چھوڑنے کے لیے جو الیکٹرانک سسٹم بنایا گیا اس کا پیارا نام رکھا ہے۔PAL یعنی دوست ۔اینٹی بلیسٹک میزائیل سسٹم کے لیے ابتداء میں جو نام رکھا تھا اس کا نام ‘‘بامبی‘‘ تھا ۔صدر کی طرف سے ہر سال ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے لیے جو منصوبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ کیا بنانا ہے اور کس تعداد میں بنانا ہے؟اسے ‘‘شاپنگ لسٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔یعنی خرید کی جانے والی اشیاء کی فہرست۔جب ایٹمی ہتھیاروں کے نشانے طے کئے جاتے ہیں تو نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے ’’مینیو‘‘ سے اس کا انتخاب کرتی ہے۔ایک خاص ایٹمی حملے کا نام ’’ بسکٹ کاٹنے والا آلہ‘‘ رکھا گیا ہے۔محکمہ دفاع نیوٹرن بم کے لیے بھی یہی لفظ استعمال کرتا ہے۔ان الفاظ اور ان استعاروں سے انسانی زندگی اور انسانی جانوں کی طرف بھی توجہ ہٹ جاتی ہے۔‘‘(۳)
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آج کا شاعر حالات کو سمجھتا ہے ۔نظریہ اور نظریاتی مہم کو جانتا ہے ۔وہ سرحدوں سے پار جا کر انسانیت کی حمایت کرتا ہے، خطے کے سیاسی مقاصد کو بچانے کی خاطر حکمرانوں کا آلۂ کار نہیں بنتا۔ اپنے شاعر ہونے کا بنیادی فریضہ ادا کرتا ہے۔ محبت، امن، زندگی اور انسانیت اُس کے ’’مذہب‘‘ کے بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نظریہ ( Stance) کا اعلان انہی قدروں کی پاسداری کے لیے کرتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ قوانینِ انسانیت (Humanitarian Laws) ہر جگہ ایک سے ہیں، جغرافیائی یا نظریاتی حد بندی سے ماورا ہیں۔اس سلسلے میں ۲۰۰۰ء میں ادارہ ’’شہرزاد‘‘ کراچی سے چھپنے والی ایک کتاب’’زمین کا نوحہ‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔اس کتاب کا موضوع ایٹم بم کی تباہ کاریوں پر لکھا جانے والا ادب ہے۔کتاب کے مرتب ضمیر نیازی نے مختلف افسانہ نگاروں اور شاعروں کو ایک جگہ اکھٹا کر کے اُردو شاعری کی جنگ کے متعلق مجموعی سوچ کو پیش کر دیا ہے۔یہ کتاب پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے ٹھیک دو سال ۲۸ مئی ۲۰۰۰ء کو شائع کی گئی۔یہ ایک قسم کا اس اقدام کے خلاف احتجاج بھی تھا۔جنگ کے خلاف عمومی روّیوں میں افسانہ نگاروں میں آصف فرخی،انتظار حسین،مبین مرزا،امر جلیل،مسعود اشعر،زاہدہ حنا،محمد سلیم الرّحمن،حسن منظر وغیرہ نے فکشن میں اپنا نقطۂ نظر پیش کیا۔شاعروں میں احمد فراز،محسن بھوپالی،انور احسن صدیقی،کشور ناہید،فہمیدہ ریاض،حسن عابدی،ہلا ل نقوی،ن۔ م دانش،ذیشان ساحل،علی محمد فرشی،شیراز راج،زاہد حسن اور حارث خلیق وغیرہ نے ایٹم بم کے خلاف ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے انسانیت کے لیے جنگ سے آزاد معاشرے کے خواب بُنے۔ زاہد حسن کی ایک نظم’’جنگ کی کوکھ سے جنمی نظم‘‘ جنگ اور خوف کے درمیان سانس لیتی زندگی کی عکاسی کرتی ہے:
میں نے پوچھا اس سے،اس کے شہر اور شہر میں آباد لوگوں کے بارے میں
میں نے پوچھا اس سے بارش،ہوا اور رنگوں کے بارے میں
میں نے پوچھا اس سے اس کے جیون اور جیون میں رچے دکھوں کے بارے میں
میں نے پوچھا اس سے شہر کی بے سود بڑھتی بھیڑ
اور پچھلے برس چھڑی جنگوں کے بارے میں
میں نے پوچھا اس سے میک اپ کی دکانوں،رنگ برنگے کپڑوں
اورلڑکیوں کے بارے میں
میں نے اس سے نیلے سمندروں،دہکتے صحراؤں
اور گہرے جنگلوں کے بارے میں پوچھا
میں نے اس سے ہر اس شے کے بارے میں پوچھا
جو ہمارے ماضی میں آباد دنیا کا
بہت عرصے تک خواب بنی رہی
اس نے میرے وجود کو ٹٹول کے دیکھا
اور میرے سینے سے لگ کر رونے لگی (۴)
اسی تسلسل کا اُردو شاعری میں اگلا پڑاؤ ہمیں عراق اور افغانستان پر امریکی اور اُس کے اتحادیوں کے حملے کے بعد شعرا کے ہاں اظہارکی شکل میں ملتاہے ۔ بہت خوبصورت اور زندہ رہنے والی نظمیں لکھی گئیں۔ اُردو شاعری میں نظرےۂ انسان دوستی نے کروٹ بدلی اور اپنی اصلی حالت میں آنے میں کامیاب ہوا۔ اس حوالے سے ابھی بہت کام کی گنجائش موجود ہے۔ اُردو شعرا نے خاص کر پاکستانی دور میں ملک سے باہر دوسرے ممالک کے درمیان جنگوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو یقیناًغیر جانبدار اور خالصتاً نظرےۂ انسان دوستی پر مبنی ہے۔ فیض صاحب، قاسمی صاحب اور دیگر ترقی پسند شعرا نے فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیلی جارحیت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسا بھی ہوا کہ صرف مسلم ممالک پر مسلّط کی گئی جنگوں پر پاکستانی شعرا نے ردّعمل کا اظہار کیا مگر نوّے کی دہائی میں یہ صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی۔ گو کہ اب بھی مسلمان ہی صیہونی طاقتوں کا نشانہ بن رہے ہیں مگر مظلومیت بہرحال ایسا مظہر ضرور ہے جس نے کمزور اور طاقت ور میں کمزور کا ساتھ دینے کا جذبہ پیدا کیا۔ آج صرف مسلمان ہی عراق، افغانستان، فلسطین اور لبنان میں جاری سامراجی طاقتوں کی جنگ کے خلاف نہیں بلکہ ہر ذی شعور دانش ور کا احتجاج اس کا گواہ ہے کہ شاعر اور شاعری کا مذہب صرف انسان دوستی اور انسانیت کادر س ہوتا ہے۔ جنگ خواہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ہی کیوں نہ ہو، انسانیت کش اور نفرت آمیز انسانی رویہ ہے، جو حیوانیت (Brutality) کے قریب تر ہے۔ اس کا استعمال بزدل عمل ہے جو کسی طرح بھی نہیں ہونا چاہیے۔ امن اور آشتی کے فروغ کے لیے گفتگو (Table Talk) کو ہی اوّلیت حاصل ہونی چاہیے۔ کلاسوٹز کے بقول جنگ شروع ہوتی ہے ختم کبھی نہیں ہوتی۔ یہی وہ پیغام ہے جو نوّے کی دہائی اور خصوصاً عراق، امریکہ اور افغان امریکہ جنگ کے ردّعمل کے طور پر پاکستانی اُردو شعرا کا مرکزی موضوع رہا۔

حوالہ جات

۱۔ ساجدہ زیدی:فرائڈ کا نظریۂ شخصیت،مشمولہ’’شخصیت کے نظریات‘‘،ترقی اُردو بیورو،نئی دہلی،۱۹۷۵ء،ص۴۴)
۲۔ وداعِ جنگ (ترجمہ: اشفاق احمد)، سنگِ میل پبلشرز، ۲۰۰۰ء، ص ۲۳
۳۔ کیرل کوہن:مشمولہ مضمون’’عورت :زبانِ خلق سے زبانِ حال تک‘‘،مرتب:کشور ناہید،سنگِ میل پبلشرز،لاہور،۲۰۰۰ص۱۶۰
۴۔ زمین کا نوحہ:(مرتب :ضمیر نیازی)،شہرزاد کراچی،ستمبر۲۰۰۱،ص ۲۴۶
2007ء
***

کیا ادب ہماری سو سائٹی کا مسئلہ ہے؟

کچھ دنوں سے احباب میں یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ ’’کیا ادب ہماری سوسائٹی کا مسئلہ ہے؟‘‘ میرے خیال میں یہ ایک پیچیدہ سوال ہے جو فکری و علمی ہونے کی بجائے جذباتی اظہار کی نذر ہو جاتا ہے ۔ ہماری سوسائٹی میں واضح طور پر دو حلقے موجود ہیں جو ادب کی افادی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ دوسرا طبقہ ادب کو غیر منفعت بخش سرگرمی قرار دیتاہے۔ اوّل الذکر نظریے کی حمایت میں خود ادیب حضرات پیش پیش ہوتے ہیں جب کہ موخر الذکر میں نان انٹلیکچوئیل افراد شامل ہیں جن کا سرے سے ادب اور ادب کی جمالیاتی کائنات سے کوئی سروکار نہیں۔ ادب کی معاشرتی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ انداز سے اس سارے منظر نامے میں اترنے کی ضرورت ہے ۔ ادب پر گفتگو کرتے ہوئے ہمارا رویہ اقداری ہوجاتا ہے۔ ایک ادیب سے جب ادب کی اہمیت پوچھی جاتی ہے تو وہ ادب کو تکنیکی خوبیوں سے ماپنے لگتاہے ۔ ادب کا استعاراتی نظام کس طرح اظہار کے سانچے میں منتقل ہوتا ہے؟ یا اس سے بھی پہلے ادب ہوتا کیا ہے؟ ادب کی جمالیاتی کائنات کی تشکیل ادیب کے تخلیقی وجدان سے کیسے ظہور کرتی ہے؟ ہیئت کی ہموار سطح جذبے کی فنی اساس کو کس طرح سوز و ساز میں اتار لیتی ہے؟ قاری کن امکانات کی دنیاؤں کو ہمراہ لیے پھرتا ہے؟ کون سے قضیے تشنگی کے صحرا سے گزرتے ہوئے جل تھل ہو جاتے ہیں اور کتنے سوالات حیرانیاں اوڑھ کے سو جاتے ہیں؟
ادب پر گفتگو کرتے ہوئے ادب سے وابستہ اذہان ان مذکورہ بالا تمام سوالات کے جواب میں ادب کے امکان کی تعبیری جہت کو معاشرے کی فکری زبوں حالی یا اعلیٰ ذوقی سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں اس قضیے کا استدلال ادب کی لازمی اورمرکزی حیثیت کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ اسی طرح دوسری طرف آئیں تو ایک بہت بڑ ا طبقہ جن میں زندگی کے اُمور میں شامل مشینی انداز سے ڈھلے ہوئے لوگ، علم میں آئیں تو سائنس پڑھنے والے ، تاریخ کے گروہوں میں اُلجھے افراد ، سکول سے لے کر یونیورسٹی اساتذہ، حتیٰ کہ فنونِ لطیفہ میں بھی مصور، گلوکار اور فلم و تھیٹر سے منسلک فنکاروں کو ادب کے تہذیبِ انسانی کے جذباتی کردار سے کوئی سرو کار نہیں ، بلکہ وہ برملا ادب کو بے کار شئے یا کسی حد تک خوشگوار تفریح تک محدود قرار دیتے ہیں۔
مجھے یہاں اقبال خان کے ایک مقالے ’’زبان ، تعلیم اور آزادی‘‘کے چند اقتباسات یاد آ رہے ہیں:
’’مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہماری زبانوں نے اتنی ترقی کر لی ہے وہ ہر سطح پر اورہر علمی شعبے میں جمہوری تعلیم مہیا کر سکے؟ اور دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ ہم نے جمہوری اقدار کا یا جمہوری جذبات کی تعلیم دینے کا کام صرف ایک اونچی او ر محدود سطح پر ہی کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں طلبا ادب پڑھ سکتے ہیں، تب بھی ہماری نثر اور نظم میں شامل جمہوریت پرور مواد طلبا پر خاطر خواہ اثر پیدا نہیں کر سکتا۔
میں اپنی بات کو ایک کنکریٹ مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ یہ مثال اُردو ادب کے حوالے سے جو کچھ حد تک یہ دعویٰ کرنے کا مجاز ہوسکتا ہے کہ اس کی شاعری اور فکشن میں جمہوری اور انقلابی احساسات کی ایک شاندار روایت ہے۔ فرض کیجیے ہم کالجوں میں نوجوانوں کا اس ادب سے تعارف کرا رہے ہیں ۔ ہمیں ابتداء میں ہی ایک مسئلہ دَر پیش ہو گا۔ میں یہاں ایک نسبتاً ’’آسان‘‘ مثال دیتا ہوں ۔ احمد فراز کی نظم ’’قاتلو‘‘ اس کے پہلے ہی چند مصرعوں میں اس قسم کے الفاظ ملتے ہیں:
مقتل، پابہ زنجیر، دل زدہ خاک، رزم گاہ۔۔۔۔۔۔
اس قسم کے بُری طرح فارسی زدہ الفاظ اور ترکیبیں عام آدمی کی بول چال سے دور کسی اور ہی کلچرل دُنیا سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں ہمارے اُردو ادب کا مزاج ، اس کا ٹیکسچر وہ نہیں ہے جس سے عام لوگ کم و بیش بے ساختگی سے اپنا رشتہ جوڑ سکیں۔۔۔۔۔۔‘‘
(فلسفہ ، تعلیم، سیاست اور پاکستان کا مستقبل ، صفحہ ۵۸)
اقبال خان کا موضوع ادب کی افادی شناخت نہیں بلکہ جمہوری رویوں کی تلاش اور پھر تفہیم کے مراحل میں طلبا کی مشکلات ہے۔ اگر ہم مذکورہ اقتباسات کو پھیلا کر اپنے سوال تک لے آئیں تو کیا ایسا ہی نظر نہیں آتا کہ طلبا کا ادب مسئلہ ہی نہیں تھا جس کی وجہ سے اقبال خان کو یہ کہنا پڑا کہ یہ بُری طرح فارسی زدہ نظم تفہیم ہی کے مرحلے میں کھڑی اس کی معنیاتی کائنات سے ناآشنا کیے ہوئے ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ ادب کی زبان عام بول چال کی زبان نہیں۔ چیزوں کو (Defamiliarize) کر کے دکھانا ہی ادب ہے ۔ اگر قاری ادب کے ٹیکسچر کو سمجھ نہیں پا رہا تو یہ فن پارے کا سُقم نہیں بلکہ قاری کی کم علمی پر دلالت ہے۔ یہاں تو بات ہو رہی ہے کم علمی کی ۔ اچھے خاصے فارسی آشنا احباب بھی ادب سے بے زاری کا ذکر کرتے ملتے ہیں۔گویا مسئلہ تفہیم نہیں بلکہ ادبی عمل سے دوری ہے۔
یہاں ہم بڑی آسانی سے دو انتہاؤں کا انتخاب کر سکتے ہیں ۔ ادب کی افادی انتہا اور ادب کی غیر منفعت بخش انتہا۔۔۔۔۔۔ ہم ایک عرصے سے اپنی سوسائٹی کے حوالے سے ان دو انتہاؤں میں گردش کرتے آ رہے ہیں ۔ ادیب کو ادب کے بغیر معاشرے کی سانس چلتی نظر نہیں آتی اور غیر ادبی زندگی یا معاشرتی زندگی میں محو شخص ادب کو بے کار یا محض تفریح کا ذریعہ قرار دیتا آ رہا ہے۔ اس مسئلے پر غیر جانبداری سے ہم نے کبھی نہیں سوچا۔ ادب کیا ہے؟ اور وہ سوسائٹی کے لیے کیوں ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ادیب ’’اپنی سوسائٹی ‘‘ کو مدنظر نہیں رکھتا۔ کیا ’’ادب‘‘ کی جاندار اکائی ( جو مُسلّم ہے) ہمارے معاشرے کے لیے ’’موجود‘‘ کے منظر نامے میں ضروری ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو دو انتہاؤں سے اتر کر سنجیدگی اور غیر جانبداری مانگتا ہے۔
اس سوال کا جواب دینے والے ہمیشہ اقداری رہے ہیں ۔ اس لیے کہ ادب کا تعلق ہمیشہ مخصوص افراد کے حلقۂ داد و تحسین میں رہا ہے ۔ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھرپور شامل نہیں رہے ۔ اگر وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں گئے بھی ہیں تو بالکل دو انتہاؤں کی طرح۔ ان کی غیر ادبی زندگی اتنی ہی مختلف تھی، جتنی منفرد زندگی وہ ادب میں گزار رہے ہیں ۔ اسی طرح غیر ادبی معاشرتی زندگی گزارنے والے لوگ ادب سے کلی یا جزوی طور پر الگ تھلگ رہتے ہیں ۔ ان کے جذباتی اُتار چڑھاؤ میں ادب شامل نہیں ہو پاتا۔ معاشرت اور ادب کی افادی ضروریات والا سوال محض پسند و نا پسند کی سروے رپورٹ سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ ادب سے معاشرتی اور جذباتی قدروں سے وابستہ ہوتے ہوئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیے :’’کیا ادب ’’ہمارے معاشرے‘‘ کا مسئلہ ہے؟‘‘
میرے خیال میں ادب ہمارے معاشرے کا مسئلہ نہیں۔ یہ علمی یا ذاتی سرگرمی تو ہے مگر اس سے معاشرے اور انسان کے ساتھ کسی افادی پہلو کی تلاش بے کار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ادب ذاتی سرگرمی( جو انفرادی سطح پر تہذیبی عمل ہو سکتا ہے) سے جب بھی آگے بڑھے گی نان انٹلیکچوئیل رویوں میں ڈھل کے عام معاشرتی بھاگ دوڑ میں شامل ہو جائے گی۔ ( یہ مثبت فارم کے طور پر بڑھنے کا نتیجہ ہے۔)ایک ادیب تخلیقی صلاحیتوں کو اپنے تعمیری کردار میں شامل کر کے ادب کے برعکس غیر استعاراتی فکر کا نمائندہ بن کے سامنے آتا ہے ۔ ہم جسے ’’اچھا انسان‘‘، ’’سماجی کارکن‘‘، ’’کامیاب آفیسر‘‘ وغیرہ وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا ۔ وہاں ادیب ان تمام القاب کے ساتھ بھی ایک ادیب ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ادیب اپنی جذباتی کائنات فن کے ساتھ زندگی میں اترتا ہے تو معاشرہ اسے قبول نہیں کرتا۔ لہٰذا اعلیٰ ادیب ، ادب اور معاشرے کے علیحدہ علیحدہ خانوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ شرط یہ کہ وہ معاشرے میں بھی اعلیٰ زندگی گزارتے ہوں، وگرنہ عام دیکھا گیا ہے کہ ادیب معاشرتی حوالے سے ناکارہ اور اخلاقی بنیادوں پر پڑے ہوئے کھنڈر ہوتے ہیں وہ سوسائٹی کے معاشرتی پھیلاؤ میں کمزور ، بزدل اور غیرت کے مروّج تمام مفاہیم پر پورا نہیں اُترتے۔ لہٰذا اُن کی ادبی سرگرمی ایک فرد کی انفرادی سرگرمی بن کے دوسرے افراد کی انفرادی سرگرمیوں کے ساتھ ٹکراکر موازنہ کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ۔ یوں یہ معاشرتی عمل کا حصہ بننے کی بجائے غیر معاشرتی یا بے کار عمل کے طور پر بڑھتی پھولتی رہتی ہے جس کی معاشرے کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں۔
کیا ہمارے معاشرے کو ادب کی ضرورت ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے معاشرے میں ادب کو کبھی ’’ضرورت‘‘ کے ضمن میں نہیں رکھاگیا۔ بھوک، انصاف، تشدّد اور بے روز گاری معاشرے کے اندر غیر معاشرتی تہذیبی قدروں کے فروغ کا باعث بن رہی ہے ۔ ہمارے معاشرے میں زندہ رہنے کے بنیادی قواعدکا فقدان ہے جو انتشار اور بے چینی کا موجب بنتے ہیں جو فرد کی موضوعیت کو خارجیت سے جوڑنے کی بجائے بے ربط کر کے اُکتاہٹ اور بے زاری کو فروغ دیتے ہیں جن سے زندگی کے پست رویے جنم لیتے ہیں۔ ہمارا پورا معاشرہ روحانی رویوں سے عاری معاشرہ ہے جو بدن کے سہارے ’’موجود‘‘ ہے جو ٹیلی ویژن سکرین پر آنے والے منظروں کی طرح پارہ سیماب ہے ۔ جہاں ماضی ’’ناسٹلجیا ‘‘ نہیں بلکہ ’’واقعہ ‘‘ ہے ۔ جہاں حال مجبوری اور مستقبل ، تلخ حقیقت کے طور پر استقبال کرتے ہیں۔ ادب موضوعیت (Subjectivity) کی بنیادوں پر خارجیت(Objectivity) کی تعمیر ہے۔ تہذیب کا عمل بھی تو ایسے ہی ہے جہاں خارجیت کبھی موضوعیت پر اثر انداز ہوتی ہے تو کبھی موضوعیت، خارجیت کی تراش خراش کرتی ہے۔ محض موضوعیت (Subjectiviy) کے سہارے تہذیبی عمل ناکارہ عمل ہے اور محض خارجی رویوں کی بنیادوں پر کھڑی معاشرتی عمارت مٹی کا ڈھیر نہیں تو اور کیا ہے؟
ہمارے معاشرے میں موسیقی وہ فنونِ لطیف کی شاخ ہے جو کسی حد تک تہذیبی سرگرمی کے طور پر عام معاشرت زندگی کے ساتھ چلتی ہے ۔ عام آدمی ( Lay Man) کی زندگی، جس کا موسیقی کی تخلیقی دُنیا سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ موسیقی کی سُر تال پر گفتگو کرتا یا لُطف اُٹھاتا نظر آتا ہے۔ Cdsیا کیسٹس کا مجموعہ، کمپیوٹرز یا ٹیپ ریکارڈرز کی گھر گھر موجودگی عام آدمی (Lay Man) کے اس فنِ لطیفہ میں شمولیت کا اظہار ہے۔ اور تو اور پورے پورے ٹی وی چینلز ، موسیقی کے لیے وقف ہیں۔ بھارت میں یہ صورتِ حال پاکستان کی نسبت زیادہ مضبوط ہے ۔ وہاں خالص راگ رنگ کی محافل میں ہزاروں کا مجمع سر سے سر جوڑ کر سُنتانظرآتا ہے۔ بھارت کی نسبت ہمارے ہاں یہ سرگرمی کم سنجیدہ اور زیاہ تر تفریحی مقاصد کے ضمن میں شمار کی جاتی ہے مگر موسیقی کے فن میں عام آدمی کی معاشرتی زندگی اپنا عکس دکھاتی ملتی ہے۔ سوز و ساز ، کیتھارس، ناسٹلجیا، دردو داغِ محبت، روحانی آسودگی، اور تفریح کیا یہ وہ مقاصد نہیں جو اس فنِ لطیف کا ہدف ہیں؟ لہٰذا موسیقی کا کسی حد تک ہمارے معاشرے میں تہذیبی کردار بنتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مذہب کی غیر منطقی بندشوں نے اس کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا ہے۔
مصوری بھی کہیں کہیں بہت خوبصورت انداز میں اپنا سوشل کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں عام گھروں، دکانوں، دفاتر میں نہایت اعلیٰ (Paintings) آویزاں نظر آتی ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرانی ہوتی ہے کہ اتنا اعلیٰ ذوق اس سطح پر کیسے جلوہ افروز ہواہے۔یہ تہذیبی سرگرمی غیر شعور ی طور پر ہمارے معاشرے میں کہیں کہیں اپنی جھلک دکھانے میں کامیاب نظر آتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شاعری یا ادب فنِ لطیف نہیں اور یہی وہ معاشرہ ہے جو مذکورہ بالا فنون کو معاشرتی اکائی تسلیم کر رہا ہے ۔ خواہ کسی حد تک ہی سہی، مگر ادب یا ادبی عمل کے لیے یہی معاشرہ ہاتھ اُٹھائے نظر کیوں آتا ہے۔ اس کا جواب بھی واضح ہے۔ موسیقی اور مصوری فنونِ لطیفہ کی نازک شاخیں ہونے کے باوجود تفریحی سطح پر عام آدمی کے شخصی کردار کو سیراب کرتی ہیں جن کی اثر پذیری زیادہ جلد او ر لطف اندوز کیفیات ہیں ۔ ادب یا ادبی عمل کا غالب عنصر فکری لطف اندوزی ہے جو سوزِ دماغ اور دردِ جگر کے مترادف ہے۔ یہی وہ ناگزیر عمل ہے جسے کوئی تہذیب مضبوط بنیادوں پر سہارتی ہے معاشرہ جو ٹوٹ پھوٹ اور فکری انتشارکا شکار ہے کم از کم اس صنف کا متحمل نہیں ہو سکتا، جب تک زندگی آسودہ قدروں کی تکمیل کا ذائقہ نہیں چکھ لیتی۔ یہ عمل تب تک چند مخصوص افراد کا انفرادی عمل بن کے انہی کی تہذیبی خدو خال نکھارنے میں مصروف رہے گا، مجموعی سماجی حرکت میں شامل نہیں ہو پائے گا۔
آئیے دیکھئے کہ ادب، ادیب اور ادبی عمل ’’ہمارے معاشرے ‘‘ میں کہاں کھڑے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں ہونے والے ریسرچ پراجیکٹس کو کتنا عملی بنایا گیا ہے۔ ایسے ایسے موضوعات پر ڈگریاں جاری کی گئی ہیں جو ادب اور معاشرے کے باہم تعلق تو کیا ادب کے لیے بھی کوئی سود مند بڑھوا ثابت نہیں ہو سکتیں ۔ اگر کسی اعلیٰ موضوع کو شعوری یا غیر شعوری طور پرتحقیقی منصوبہ جات میں جگہ دی بھی گئی ہے تو ہماری یونیورسٹیوں نے لائبریریوں کی زینت بناکے اسے محدود کر رکھاہے۔ یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹس کو اچھے مقالات چھپوانے کا اہتمام کر کے اعلیٰ موضوعات کو نذرِ خاص و عام کرنا چاہیے۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں؟ کیونکہ وہ محض انفرادی سرگرمی سے زیادہ کچھ اور نہیں۔ اس کی ضرورت مقالہ نگار اوریونیورسٹی کو تو ہو سکتی ہے، مگر مجموعی معاشرے کے تہذیبی عمل کو نہیں۔ ہمارے ہاں سرکاری، ادبی اداروں کی کار کردگی محض سرکاری اسائمنٹس سے زیادہ نہیں۔ سرکاری ، نیم سرکاری اور پرائیویٹ ادارے ایک ہی حلقے کی انفرادی تسکین کا باعث بن رہے ہیں، سماج کی مجموعی حرکت کا حصہ دار نہیں بننے پائے۔
ہمارے کتنے ادیب زندگی کا اعلی سماجی کردار اپنے اوپر اوڑھے ہوئے ہیں۔ وہ زیادہ تر ادب سے ہی وابستہ کسی شعبے سے منسلک ہیں اور جو غیر ادبی زندگی سے منسلک ہیں ان کی زندگیوں میں ادب نام کی کوئی جگہ نہیں اور وہ بالکل ہی علیحدہ ایک اور دُنیا کا حصہ بن کے ادب کے حصہ دار بنتے ہیں ۔ گویا انھیں بھی ادب کے لیے ایک مخصوص ماحول میں آنا پڑتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ادیب کا ’’کردار‘‘ مانگتا ہے ۔ ادیب کو معاشرے اور ادب کے درمیان فکری پُل بنانے سے کہیں پہلے سماجی کردار ادا کر کے اس معاشرے کی گرتی عمارت کو سنبھالنے کی ضرورت ثابت کرنا ہو گی۔ جب یہ سنگریزے تہذیبی عمارت میں ڈھلیں گے ادب خود بخود سماج کی نبض بن کر چلنے لگے گا۔
2006ء
***

میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال

’’’لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا،یہ کمپلیکس ہی تو میری تحریریں ہیں۔‘‘۱؂
میرا جی کی نظمیں تین طرح کے متون میں بٹی ہوئی ہیں۔ایک نظموں کا اپنا وجود، دوسرا ثنااللہ ڈار اور تیسرا میراجی کا بے ترتیب کردار ۔میرا جی کو پڑھتے ہوئے کبھی نظمیں خود کوپڑھواتی ہیں،کبھی ثنااللہ ڈار کو اور کبھی میرا جی اپنے گولے لیے آ دھمکتے ہیں۔میرا جی کو پڑھتے ہوئے میرا جی کی نظمیں خود کو پڑھوانے کے لیے میرا جی کے جوشِ جذبات،مریضانہ حسیت، اعصابی تشنج،دیوانہ پن اور ادھوری جنسیت کا سہارا لیتی ہیں۔میرا جی کے ساتھ(یا اُردو نظم کے اِس اہم موڑ کے ساتھ) یہ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے کہ ان نظموں کو ہمیشہ میرا جی کے حقارت آمیز، قابلِ رحم اوراساطیری کردار کے آئینے میں پڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔جس نے میراجی کی نظموں کی تفہیم نہیں ہونے دی اور جب بھی اس تنقیدی متن میں کسی نئے اضافے کی خبر ملنے لگتی ہے تو میراجی کے گولے چھن چھن بجنے لگتے ہیں اور ان نظموں کی چیستانی صورتِ حال پر گفتگو موقوف کر دی جاتی رہی ہے۔
بیسویں صدی کے اس شاعر کی نظموں کی فکری اُپج دو طرح کے بڑے موضوعات میں بٹی ہوئی ہے:
۱۔ فرد اور سماج کا رشتہ ۲۔ ذات کی نفسیاتی اُلجھنوں کا اظہار
میرا جی نے فکری سطح پر فرد اور سماج کے رشتوں کو نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اس طرح کی فکر نے اُن کے شعری وژن کو متاثرکیا۔وہ ساری عمر ذات کی کج رویوں کے فلسفۂ تشریح و ابلاغ میں مصروفِ عمل رہے۔فرد اور سماج کے رشتے سے منسلک اُن کی کچھ نظمیں ہی میسر ہیں۔
میرا جی کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔میراجی کی نظموں کے موضوعات کیا ہیں؟اور موضوعات کی فکری اور فنی دروبست کا مقام کیا ہے؟یہ دو الگ الگ سوال تھے۔مگر ناقدین نے ان سوالوں کو ہمیشہ میرا جی کے کردار کے آئینے میں رکھ کے ایک ہی نظر سے دونوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے جس سے اس چیستانی صورتِ حال کا حل نظر نہیں آرہا۔
میراجی کا کردار اور اُن کی نظموں میں اُن کا کردار _______یہ بھی دو الگ الگ موضوعات تھے۔میراجی کی نظموں میں اُن کے شخصی کردار کو تلاش کرتے ہوئے اِن دونوں کرداروں کو ملا دیا گیا۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ دونوں کردار میراجی کی شخصیت کاحصہ تھے ؟اگر اُن کی شخصیت ہی اس طرح کی تھی تواس بلا کی ذہانت اُن میں کہاں سے آ گئی۔اصل میں میراجی کے ہاں اُن کا یہ کردار ’’شعوری‘‘ کردار کے طور پر کام کر رہا تھا۔اس مضمون کا ’آغازیہ‘ ہی اصل میں میراجی کے متن کی فکری ردِّ تشکیل کرتاہے۔میراجی جتنا نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار تھے وہ اُسی قدر ہیجانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا ’’شعوری‘‘ادراک بھی رکھتے تھے۔یوں اگر دیکھا جائے تو اُن کی نظموں کا ٹیکسٹ نفسیاتی کم اور فنی مطالعے کا تقاضا زیادہ کرتاہے۔یہاں شاعر غیرشعوری قوتوں کے ہاتھوں مجبورِ محض نہیں بلکہ شعوری مدرکات سے اپنے کردار اور فن کواساطیری معنیات سے آراستہ کرنا چاہتا ہے یا اُس کی تسکین ہوتی ہے۔میراجی کے کردار کی ہیجانیت اور بے ترتیبی سماج کا ردِ عمل نہیں ۔وہ سماجی حوالے سے اپنی محرومیوں سے پوری طرح آگاہ تھے بلکہ کسی حد تک اپنی اسی حالت میں رہنا چاہتے تھے۔چند ایک جگہوں پر وہ اس روپ میں موجود ہیں:
’’بمبئی کے قیام کے دوران انھوں نے بھنگ بھی پینا شروع کردی۔اپنی ہےئت کذائی سے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح نمایاں ہوں۔لاہور میں جب محلے کے بچے انھیں دیکھ کر’’بڈھی میم‘‘ کا نعرہ لگاتے تو میراجی رُک کراپنے بال مٹھی میں پکڑ کرانھیں دکھاتے تاکہ اُن کا نوٹس لیا جائے۔‘‘۲؂
’’ثنا اللہ ڈار لاہور کے ایک طالب علم تھے جو میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد بعض وجوہ کی بنا پر مزید تعلیم کے لیے کالج داخل نہ ہوسکے۔اتفاق سے ان کے دوستوں میں سے ایک صاحب ایسے بھی تھے جنھیں ثنااللہ خاں افسانہ نگار بنانے کی بڑی آرزو رکھتے تھے۔انھیں ادبی مشورے دینے کے لیے کبھی کبھی ان کے کالج بھی جا نکلتے۔ان صاحب کی سیٹ کے برابر ایک بنگالی لڑکی بیٹھا کرتی جس کا نا م میرا سینؔ تھا۔ثنااللہ خاں نے اس لڑکی کو نہ جانے کس عالم میں دیکھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس پرمر مٹے۔میراؔ کو اس کے اعزا پیار سے میراجی پکارتے تھے۔ثنااللہ خاں نے پہلا کام تو یہی کیا کہ اپنا اصل نام ہمیشہ کے لیے ترک کر کے یہی نام اپنے لیے اختیار کر لیا۔پھر میراؔ کے بال انھیں خاص طور پرپسند تھے۔جب اس کے بالوں تک ان کی دسترس نہ ہوسکی تو خود اپنے بال بھی میرا ہی کی تقلید میں بڑھا لیے۔کچھ عرصے میں میراؔ کے گیان دھیان نے انھیں ایسا بے سدھ کیا کہ انھیں نہانے دھونے اور لباس کا بھی ہوش نہ رہا۔‘‘۳؂
’’ایک روز جو گئے تو معلوم ہُوا انھوں نے ایک نرس کی کلائی پرکاٹ لیا ہے۔میں نے کہا میرا جی:اس خوبصورت نرس کی کلائی پر کاٹ لیا آپ نے۔بگڑ کر کہنے لگے،پھر اس نے مجھے انڈا کیوں نہیں دیا کھانے کو۔‘‘ ۴؂
ایسے بہت سے واقعات ہیں جو میراجی کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ میرا جی کا سارا کردار شعوری تھا پہلے تو میراجی کی نظموں کی ان کے کردار کے ساتھ نتھی کرکے پڑھا جاتا رہا اور پھر ان کے کردار کو شعوری اور غیر شعوری جانچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ظاہری بات ہے یہ دو الگ الگ جہات رکھتے ہیں۔اگر یہ سارا عمل غیر شعوری تھا اور میراجی کے کردار کی تخلیق جبلی سطح پر موجود ہے تو پھر ان نظموں کی تعبیر میں اُن عناصر کی نفسیاتی وجوہات بھی با آسانی تلاش کی جا سکتی ہیں۔اگر میرا جی کی نظموں میں وہ کرب اور ہیجانیت نہیں جن کا وہ ساری عمر شکار رہے تو پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذہانت کو اپنی فن میں منتقل نہیں کر پائے اور میراجی کا سارا فن چیستاں کی شکل میں در آنے سے ایک بڑے فنی مغالطے کا شکار ہے۔اس مضمون میں اقتباسات پر زیادہ بھروسا کیا جا رہا ہے ،مقصود یہ ہے کہ اُس تصویر کو بھی ایک نظر دیکھا جا سکے جس پر بہت کم نظر گئی ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے میرا جی کی اسی کردارسازی کو پہچانتے ہوئے لکھا تھا:
’’میرا سین سے اُن کے عشق کی ساری داستان میراجی کے اپنے ذہن کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔یوں لگتاہے۔جیسے میراسینؔ محض اس کا ایک خواب تھا جسے اس نے حقیقت بنا کر پیش کیا اور جب خواب کا زور ٹوٹ گیا تو بھی وہ اسے قائم رکھنے کی برابر کوشش کرتے رہے۔‘‘۵؂
میرا جی کا میرا سین کے عشق کے حوالے سے بہت لکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ میرا جی تمام عمر میراسین کے عشق کے اسیر رہے۔ میراجی کی غیرمطئن حالت کی بڑی وجہ میراسین تھی۔ مگر میرا جی کے اور بہت سے’’اور عشق‘‘ کا احوال زیادہ کھل کر سامنے نہیں آیا۔دہلی کے قیام کے دوران میراجی کو دو لڑکیوں سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ’’ایک کو وہ پیار سے بلی خانم اور دوسرے کو بدلی یا بادلی بیگم کہا کرتے تھے۔بلی خانم کا اصلی نام سحاب قزلباش تھا۔ ‘‘ ؂
میرا جی کو میرا سین سے کتنا طوفانی عشق تھا یا اُن کا عشق کتنا ازلی اور ابدی مقامات کا نقطۂ اتصال تھا۔ اس حوالے سے بھی بہت کم لکھا یا تجزیہ کیا گیا۔ اگر میراجی کا میراسین والا عشق اتنا ابدی تھا جس نے انھیں ثنا اللہ سے میراجی بنا دیا توخود میراجی بادلی بیگم کا خاکہ اس ہیجانی جذبات سے نہ کھینچتے:
’’دبا دبا سا قابو میں کیا ہوا قد، نہ سرو کی برابری نہ بوٹا سا۔ بھرا بھرا سا جسم جو کسی دن تو دبلا پتلا دکھائی دیتا اور کسی روز اپنی تروتازگی اور فطری معصومیت کے بَل پر موٹاپے کی یاد دلاتا۔آنکھوں کی چمک ہرصورت میں یہی کہتی کہ ذہانت سے رشتہ ناتا ہے اور اس کے ساتھ پتلے ہونٹوں پر اکثر ایک تبسم ، طبیعت کی تیزی، شوخی، شرارت اور شوخی بھی کیسی ؟ جس پر کبھی گمان ہو کہ تریاچتر ہے اور ہمیشہ اسے سرسری نظر سے دیکھنے والے بال پنے کی ایک اَن مٹ لہر کہی دیں۔‘‘ ؂
مختار صدیقی: اکیلا مشمولہ’’میرا جی ؛ایک مطالعہ،سنگ، میل پبلشرز لاہور، مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی، ص ۱۸۳
ایسا لگتا ہے کہ میرا کا سارا تصورِ عشق بھی اُن کے کردار کی طرح ایک’’ شعوری کردار ‘‘تھا۔ منفرد ہونے اور اپنی تخلیقی کج روی کو زندہ رکھنے کا اک بہانہ______ رشید امجد نے لکھا ہے:
’’ڈرامہ کرنے کی عادت میرا جی کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ شائد وہ ساری زندگی اپنے آپ سے بھی ڈرامہ ہی کرتے رہے اور دوسروں سے بھی______‘‘ ؂
’’ڈرامہ پیدا کرنے کی یہ عادت ان کی ایسی مجبوری بن گئی تھی کہ جس پر خود بھی انھیں اختیار نہیں تھا۔‘‘ ؂
رشید امجد ڈاکٹر: میراجی:شخصیت وفن، مغربی پاکستان اکیڈمی،لاہور،۱۹۹۵ء، ص۳۶
عموماً شعر کا لاشعوری محرک اپنی جولاں گاہ خود بناتا اور تیور سنوارتا ،آگے بڑھتا ہُواملتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا جی کی لفظی دروبست ایک نئی شعری لغت کو تشکیل دے رہی تھی مگر جذبے کی لوچ اور گداز پن نہایت محدود پھیلاؤ کا شکار رہا۔وہ ہیجان انگیز کیفیات کو بھی ایک مخصوص فریم میں پیش کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔پڑھنے والا لفظوں کے گرد تعمیر کیا جانے والا ہالہ توڑنے میں وقت صرف تو کرتا ہے مگر جو امیجری کھلتی ہے اُس کا ہیولا کسی ہیجانی کیفیات کا پیش منظر نہیں بنتا اور صاف لگتا ہے کہ اِن نظموں کا تخلیقی پس منظر بھی کسی ہیجانی اتھل پتھل کا ردِّ عمل نہیں۔چند ایک نظموں میں دیکھیے،بیانیے کی شدت ،موضوع کی ضرورت سے کس قدر کم اور مبہم ہے:
مجھ کو اُلجھن ہے یہ کیوں میں تو نہیں ہوں موجود
رات کی خلوتِ معجوب کے مخمور صنم خانے میں
میری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں
اور دل کہتا ہے یہ دردِ دل سوختہ ہے
ایک گھنگھور سکوں،ایک کڑی تنہائی
میرا اندوختہ ہے
(شام کو راستے میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی عورت کا پیراہن ،کسی خلوت کی خوشبوئیں
کسی اک لفظ بے معنی کی میٹھی میٹھی سرگوشی
یہی چیزیں مرے غم گیں خیالوں پر ہمیشہ چھائی رہتی ہیں
(میں جنسی کھیل کو اک تن آسانی سمجھتا ہوں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُلجھنوں سے کیوں ترا نادان دل گھبرا گیا
زندگی میں اُلجھنیں دلچسپیاں لائیں تمام
پیشتر تھا عمر کا پھل سادہ سادہ اور خام
اُلجھنوں سے پختگی کا رنگ اس میں آگیا
(میرا جی پابند نظمیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے گریہ سنائی دے رہا ہے
یہی جی چاہتا ہے پاس جا کر بھی اسے سُن لوں
مگر ڈرہے جب اس کے پاس پہنچامیں تو گریہ ختم ہوگا
ایک گہری خامشی ہوگی
(انجام)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو چلیں
بہن یہ کہہ رہی تھی اب تو آپ بسا ہی لیں
میں سوچتا تھا ،کس کا گھر،ہمارا گھر تمھارا گھر
اور اُس پہ بھائی بول اُٹھا،فضول ہے یہ گفتگو فضول ہے
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں
(شراب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جل پری آئے کہاں سے؟ وہ اسی بستر پر
میں نے دیکھا ، ابھی آسودہ ہوئی ، لیٹ گئی
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے ، نم دار ہے ، دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے
(لبِ جوئبار)
ان نظموں میں الجھنیں ہیں،پریشانی ہے،نفسانی ہیجانیت ہے مگر نہ جانے کیوں نظم کابیانیہ Straightہونے کی وجہ سے وہ شدت پیدا نہ ہو سکی جو نظموں کا موضوعاتی تقاضا تھا۔’’لبِ جوئبار‘‘ کا موضوع شدید ہیجانی کیفیات کا ردِ عمل ہے مگر نظم میں ایک رومانی فضا کی عکس بندی کی گئی ہے۔اس نظم میں در آنے والے چند لفظوں پر غور کیا جائے۔نشستہ بُت،جھاڑیاں سلسلۂ کوہ بنیں،خشک پتوں کا بستر،نغمہ بیدار ہُوا،جل پری روپوش ہوئی،چشمہ کی مانند،اچھوتی سی دلہن کی صورت،تصور کا دولہا،ہر بوند میں آبی پاؤں،بستر پر انجان پری،بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاؤں،ہاتھ آلودہ،دھندلی ہے نظر۔۔۔ وغیرہ۔اس نظم کا موضوع ان لفظوں کی بالائی سطح کا استعمال کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔میراجی نے ان نظموں میں جو ہیجانی امیجزبنائے ہیں۔وہ ملاحظہ ہوں:
۰ آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بُت ہے
(ایک انجان لڑکی پیشاپ کرنے کے لیے بیٹھتی ہے)
۰ خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
(پیشاپ کا پتوں پر گرنا)
۰ نہاں خانے سے۔۔۔جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے
(پیشاپ کا اندامِ نہانی سے خارج ہوتے وقت چمکنا)
۰ جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی
(لڑکی کا حاجت سے فارغ ہو کر چلے جانا)
۰ منظر انجان،اچھوتی سی دلہن کی صورت
(لڑکی کا ہیجانی تصور جاگ اُٹھتا ہے)
۰ زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاؤں۔۔۔خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے
(دوبارہ لڑکی کے پیشاپ والے منظر کو یاد کیا جارہا ہے)
۰ میں نے دیکھا،ابھی آسودہ ہوئی،لیٹ گئی
(لڑکی کا تصور شاعر کے تصورات میں ہیجانیت پکڑتا ہے)
۰ ہاتھ آلودہ ہے،نم دار ہے،دھندلی ہے ۔۔۔ہاتھ سے آنکھ کے آنسو نہیں پونچھے تھے
(تصور استمنا بالید کے ذریعے شاعر کو تسکین پہنچا رہا ہے)
ان امیجز اور ذخیرۂ الفاظ کی موجودگی میں نظم اپنی شدت کی تلخی بیان کرنے کی بجائے ایک مدھم اور رومانی فضا کا نقشہ کھینچ رہی ہے ۔ایسا نہیں کہ شاعر ان کیفیات سے گزرا نہیں ۔معاملہ یوں ہے کہ شاعر پر یہ واردات اُتری ہے مگر دو حصوں میں تقسیم ہو کر ۔پہلے حصے میں وہ عملی تجربہ سے گزرتا ہے اور پھر بعد میں ان کیفیات کو شعوری سطح پرشاعرانہ رنگ دیتاہے۔یوں یہ نظم بنتی ہے اُترتی نہیں۔میراجی کی اس نظم میں موضوع اپنے شعری شدت سے دور کھڑا ہے۔شعری پیکر کے وجود میں جو منظر پیش کیا جارہا ہے وہ تجرباتی سطح پر ویسا نہیں تھا۔اپنی معروضی حالت میں بھی اور اپنی کیفیتی حالت میں بھی۔۔۔
میرا جی کے ایک ہم عصر’ مجید امجد‘ اپنی زندگی کی جس محرومی کا داخلی تجربہ کر رہے تھے وہ نیچرل اور غیر شعوری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجید امجد کے ہاں زندگی اپنی فلسفیانہ جذباتیت میں ڈوبی ہوئی گہرے اور بڑے شعری تجربے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔مجید امجد کی کسمپرسی کا مجید امجد کو شعوری ادراک نہیں تھا مگرمیراجی اپنی زندگی کی اس حالت کا ناقدانہ جائزہ لیتے رہتے تھے۔انھیں پورا ادراک تھا کہ وہ کس قسم کا افسانہ ترتیب دے رہے ہیں۔چند ایک اقتباسات دیکھیے:
’’میں دنوں،مہینوں بلکہ بعض دفعہ ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک نہیں نہایا کرتا،دنیا کو یہ بات بُری معلوم ہوتی ہے اور میں اسے سمجھتا ہوں،میرے کپڑے اکثر میلے دکھائی دیتے ہیں،دنیا بُرا مانتی ہے،میں جانتا ہوں،بعض دفعہ خالی پیٹ زیادہ شراب پینے سے صبح مجھے اپنابستر خود گیلا محسوس ہوتا ہے۔‘‘۶؂
’’میں دلی چھوڑ کے بمبئی کے گرد و نواح میں ہوں۔پہلے دفتر کی میزوں پر سوتا تھا۔اب فرش پر براجمان ہوتا ہوں۔۔۔خود کو کبھی معمولی اور کبھی پہنچا ہُوا بڑا فقیر تصور کرتا ہوں اور دنیا مجھے بھکاری سمجھتی ہے۔سچ ہے سماج کے فرائض جس طرح دنیا انھیں سمجھتی ہے میں جس طرح انھیں سمجھتا ہوں پورے نہیں کیے۔لیکن میں نے اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے اس کا لحاظ کسے ہوگا!!‘‘۷؂
یہ تو صرف عبداللطیف کے نام کے خطوں کے اقتباسات تھے۔میراجی کا یہ وجدانی شعور تھا محض سماجی حالات سے آگہی نہیں۔وہ اپنے حالات کے خود تخلیق کردہ تھے اور اس لاچارگی پر بے بسی کی اذیت میں کڑھنے کی بجائے وہ اسے اپنا اثاثہ قراردیتے رہے۔اپنے خطوط میں وہ اپنے شعری ابہام اور موضوعاتی پیچیدگی کا ہرگز شکار نہیں نظر آتے۔بلکہ اُن کے ہاں کسی قسم کی نفسیاتی یا جنسی کشمکش نہیں ہے۔اپنی نظموں کی اشاعت کے حوالے سے وہ بہت شاکی تھے۔قیوم نظر کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’۱۔ ہر مجموعے کو صرف ایک ایڈیشن کے لیے بیچنے کی کوشش کرو اور زیادہ سے زیادہ وصولی کی کوشش کرو۔
۲۔ اگر کافی سے زیادہ پیسے نظر آتے ہوں تو اس صورت میں کسی ایک مجموعے کے لیے جملہ حقوق دے سکتے ہو۔
۳۔ اُردو بُک سٹال،سنگم اور جالندھر والوں سے اگر بات ہوجائے تو اسے ہم ترجیح دیں گے۔
۴۔ اُردو بُک سٹال اور سنگم سے مختار (صدیقی)نے پہلے کچھ باتیں طے کر رکھی ہیں۔جن کا تمھیں حال معلوم ہے۔
۵۔ یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔جس نئے جوئے میں حصہ لینے کے لیے میں اور مختار اس وقت تلے ہوئے ہیں۔اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان تینوں مجموعوں کو زیادہ سے زیادہ پیسوں پر جلد سے جلد بیچ دیا جائے۔
باقی سب تم خود سمجھ سکتے ہو۔‘‘۸؂
ن م راشد نے جب انھیں ’’کانگریسی گاندھی‘‘ کا لقب دیا تو وہ اس کا اظہار اس ٹائٹل کے حق دار کی طرح کرتے رہے ۹؂
میراجی اپنی نظموں میں ایسے کیوں نہیں تھے؟کیا میراجی کی کرداری چیستانی صورتِ حال اُن کی نظموں کی بھی صورتِ حال بنی؟کیا میراجی کی نظموں کے مبہم لسانی پیکر اُن کی شخصیت کا پرتو تھے؟کیا میراجی کی نظموں میں ہیجانی اور لاشعوری نفسیاتی کیفیات صرف شعوری سطح پر موجود ہیں یا جذباتی سطح پر بھی قاری کو ہیجانیت یا جذباتیت کا شکار کرتی ہیں؟ میرا جی کا ابہام فنی ابہام ہے یا نفسیاتی؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات کا ازسرِنَو جائزہ لینا ہوگا۔میراجی کی کرداری اور شعری تصویرکشی جس طرح ہوچکی ہے اُردودنیا میں ایک ’’متھ‘‘ کی شکل میں ڈھل چکی ہے۔میرا جی کوئی لاچار یا محروم طبقے سے وابستہ نہیں تھے۔اپنے دور کے بہترین دماغ اُن کو میسر تھے۔اُن کی رسائی ریڈیو، اخبارات اور معروف جرائد تک بہت آسان تھی۔وہ انتہائی زیرک،کثیر مطالعہ اور نظر شناس ادیب تھے۔وہ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں:
سرسری طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مشرق سے مہارانی میرا بائی،چنڈی داس اور امرو نے مجھ پر اثر کیا اور مغرب سے والٹ وٹمن،ڈی ایچ لارنس،سٹیفن میلارمے اور چارلس بودلےئر نے مفکرین میں سے چارلس ڈارون،سگمنڈ فرائڈ،سر جیمز جینز،آئن سٹائن(جن کے نظریے کو میں نہیں سمجھ سکتا) ہیولاک ایلس اور رابندرناتھ ٹیگور قابلِ ذکر ہیں۔اور شعرا کی فہرست یہ ہے:امیر خسرو،سید انشاء اللہ،میر تقی میر،حفیظ جالندھری،عبدالرحمن بجنوری،مولوی عظمت اللہ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر۔۔۔‘‘۱۰؂
میرا جی کی نظموں میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ابہام ہے۔ابہام ہمیشہ دو طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔ متن کی معنیاتی حدود کے سکڑاؤ سے
۲۔ متن میں موجود معنیاتی ابعاد کے پھیلنے کی وجہ سے
میراجی کا ابہام متن کی معنیاتی کائنات کے سکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔عموماً اس طرح کا ابہام ذات کی لاشعوری یا شعوری اُلجھنوں کا ،فنی سطح پر،درست اظہار نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میراجی ابہام کو خود شعوری طور پر برت رہے تھے۔مثلاً وہ لکھتے ہیں:
’’اکثریت کی نظمیں الگ ہیں میری نظمیں الگ ہیں اور چوں کہ زندگی کا اصول ہے کہ دنیا کی ہر بات ہر شخص کے لیے نہیں ہوتی اس لیے یوں سمجھئے کہ میری نظمیں بھی صرف انھی لوگوں کے لیے ہیں جو انھیں سمجھنے کے اہل ہوں یا سمجھنا چاہتے ہوں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہوں۔کوشش ہی سے وقت کی پابندیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔‘‘۱۱؂
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اُن کے ابہام کو ایک اور طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
’’میراجی کے ہاں ابہام کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ان نفسی اُلجھنوں اور ان ذہنی کیفیات کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے لاشعور میں سو رہی ہیں۔ایسی نفسی اُلجھنیں اور کیفیات کو جن کی کوئی شکل اور کوئی نام نہ ہو،لفظوں کے ذریعہ پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔یہاں مروّجہ زبان اور اس کے الفاظ معنی بدلنے لگتے ہیں اور نئی تراکیب اور بندشیں، استعارے اور علامات باربار سامنے آتے ہیں۔ساتھ ساتھ میراجی تخلیقی سطح پر حقیقت کو خراب بنانے اور دونوں کو ملا کر ایک کر دینے کی کوشش میں خالص شاعری کو جنم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘۱۲؂
اگرابہام ایک اضافی تصورِ حیات ہے تو فنی چیستانی صورتِ حال کا معمہ کیا چیز ہے؟میراجی کی نظموں کو ہمیشہ اسی فریم میں لا کے چھوڑ دیا گیا ہے۔مثلاً میراجی کی کئی نظمیں باقاعدہ چیستانی عکس بندی ہے۔بلکہ دو نظموں کے عنوانات ہی پہیلیوں پر مشتمل ہیں:
۰ چیستاں ۰ پردان دان کی پہیلی
اسی طرز پر اُن کی بہت سی نظمیں مل جاتی ہیں۔اُلجھن کی کہانی،ایک ہی کہانی،دو نقشے، یہودی، چنچل بیٹی شیطان کی،ناچ وغیرہ باقاعدہ پہیلیوں کی طرز پر بنی گئی نظمیں ہیں جو ایک طرف میراجی کے فنی لاشعور میں شامل گیت کی موجودگی کا پتا دیتی ہیں اور دوسری طرف اُن کے ذہن میں موجود چیسانی صورتِ حال کا بھی نقشہ کھینچتی ہیں۔
میراجی کو سمجھنے کے لیے اُن کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لاناہوگا۔نظمِ میراجی کا سارا Texture گیت کی فضا کے قریب ہے۔وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔گیت ہی اصل میں اُن کے فن کا اظہاریہ تھا۔وہ ہرگز شدت پسند نہیں تھے۔وہ ہیجانی بھی نہیں تھے۔ہمارے ناقدین نے انھیں جنسی درندے کی شکل میں پیش کیا ہے۔اُن کی ’درندگی‘محدود شعوری اظہار تھا جسے اُن کی مجبور کیفیات نے گھیر کے اُن کے گرد ہالے کی طرح بُن ڈالا تھا۔میراجی اول تا آخر ایک گیت نگار تھے۔وہ گیتوں میں واضح اور ٹھوس انسان کی شکل میں ابھرے ہوئے ہیں۔اُن کے گیتوں میں ہیجانیت نہیں ،وجدانیت کا سوز ہے۔وہ جنسی جذبات کی آمیزش سے روح کا پاتال تیار کر لیتے ہیں جو کسی بڑے شاعر کا وطیرہ ہوتا ہے۔میراجی کو گیتوں کو نظموں سے الگ کرکے دیکھنے سے وہ خود بھی گمراہ ہوئے۔اُن کی نظم ساری عمر اُن سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتی رہی مگر وہ گیت سے چمٹے رہے۔سجادباقر رضوی نے اس فضا کا ہلکا سا اشارہ کیا ہے:
’’میری رائے میں میراجی کی نظمیں ان کے گیتوں سے لگائی ہوئی قلمیں ہیں اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نظموں کی پوری اہمیت کو سمجھنے کے لیے ان کے گیتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔۔۔۔۔۔گیت کہنے والے کو عورت بننا پڑتا ہے۔یعنی یہ کہ اسے عورت بن کرشدید اور معصوم اظہار کرنا پڑتا ہے اور اگر میراجی یعنی ثنااللہ کامیابی سے عورت کا کردار کر سکیں تو کامیاب گیت لکھتے رہیں گے مگرکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ثنااللہ،ثنااللہ ہی رہ جاتے ہیں۔میرابائی بن سکتے ہیں اور نہ میرا سین_____‘‘۱۳؂
میرا جی، ن م راشد اور فیض کے پہلے شعری مجموعوں کی اشاعت بالترتیب ۱۹۴۱،۱۹۴۲ کے بعد اپنا پہلا مجموعہ کلام’’میراجی کے گیت‘‘۱۹۴۳ء میں لاتے ہیں۔یہ مجموعہ میراجی نے ۵۶ روپے کے عوض لاہور کے ایک پبلشرز مکتبۂ اُردو والوں کو بیچا تھا۔حالاں کہ اس وقت وہ نظم کی مقبولیت کا بہ خوبی اندازہ کر رہے تھے۔۱۹۴۴ء میں اُن کی نظموں کا پہلا مجموعہ’’میراجی کی نظمیں‘‘شائع ہوتا ہے۔جس کے چند ماہ بعد ہی ۱۹۴۴ء میں اُن کے گیتوں کا اور مجموعہ’’گیت ہی گیت‘‘ شائع ہوتا ہے۔گویا اُن کی نظموں کے آگے پیچھے گیتوں کی فضا بھی تیار ہے۔مجھے تو ایسے لگا ہے کہ وہ اپنے شعری سفر میں گیت سے آگے بڑھے ہی نہیں۔فنی سطح پر بھی اور اُن کا خودشعور بھی_____وہ جہاں گیت سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کا فن شدید مشکلات کا شکار ہوجاتا ہے اور ابہام کے معنیاتی سکڑاؤ کا شکار ہوجاتا ہے جنھیں اُن کی طرح ناقدین اُن کے ہیجانی مسائل سمجھانے کی کوشش میں ایک سربستہ راز بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔’’اس نظم میں‘‘ جو ۱۹۴۴ء ہی میں شائع ہوئی،سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس ابہام سے بہت اچھی طرح آشنا تھے۔یہاں سے اشارہ فکر انگیز ہوگا کہ میرا جی کے تراجم’’نگار خانہ‘‘،’’مشرق و مغرب کے نغمے‘‘،’’خیمے کے آس پاس‘‘میں بھی میراجی کی ترجمہ نگاری گیت کی فضا سے باہر نہ آسکی۔بلکہ جن عالمی شعرا کے شعری پیکروں کو اُردو کے قالب میں منتقل کیاہے۔اپنے اسلوب اور ہےئت کے اعتبار سے ان کا فکری محور ہندوستانی اساطیر کا جامہ پہنے ہوئے ہے گویا میراجی نے ترجمے میں ان شعرا کے فنی اور فکری مواد کی شناخت کو مسخ کر کے پیش کیا ہے جو ایک فنی مغالطہ کا باعث بنتا ہے۔میراجی کے تراجم میں چنڈی داس،بودلےئر،والٹ وٹمن،تھامس مور،میلارمے،ڈی ایچ لارنس اور سیفو ایک ہی شاعر کی تحریریں نظر آتے ہیں۔اُن کی لسانی،فنی اور جغرافیائی شناخت کو میراجی نے گیت کا رنگ عطا کردیا ہے۔یہ ترجمہ نگاری ترجمہ کے اصولوں کے خلاف ہے۔
میراجی،ن م راشد،اختر الایمان،مجید امجد وغیرہ کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ میرا جی اپنے فنی سفر کے پہلے پڑاؤ میں تھے اُن کی نظمیں گیت سے علاحدہ نہ ہو سکیں تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ابھیe Transitional phas میں تھیں۔کیا پتا وہ اس تجربے سے کچھ نیا بنا لیتے۔وہ تو صرف اڑتیس سال کی عمر میں اپنے سارے فن کو ادھورا چھوڑ گئے۔راشد کی فکری اور فنی پختگی کا سب سے سنہری دور ’’لا= انسان ‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔جہاں انھوں نے حسن کوزہ گر،زندگی اک پیرہ زَن،زندگی سے ڈرتے ہو،سالگرہ کی رات،ہم کہ عشاق نہیں،جیسی نظمیں دیں۔
میراجی کی نظموں کے فنی سفر میں’’میراجی کی نظمیں‘‘،’’پابند نظمیں‘‘ اور’’ تین رنگ‘‘ تین شعری مجموعے ہیں جو اپنے تخلیقی معیارات میں تین موڑ بھی کہے جا سکتے ہیں۔ان تینوں مجموعوں میں میراجی کا شعری سفر بتدریج نکھرتا ہُوا ملتا ہے۔شاید وہ اِس سے اگلے سفر پر زندگی اور اپنی ذات کے قضیے کو حل کر کے کسی بڑے تخلیقی سفر کی مسافرت اوڑھ لیتے اورآئندگاں کے لیے بڑا ’’فن‘‘ پیش کرنے میں کامیاب ہوجاتے۔


حوالہ جات

۱۔ اخترالایمان:میراجی کے آخری لمحے،نقوش لاہور،شمارہ ۲۸،۲۷،۱۹۵۲ء،ص۱۲۳
۲۔ شاہین مفتی،ڈاکٹر:جدید اُردو نظم میں وجودیت،سنگِ میل پبلشرز لاہور،۲۰۰۱ء،ص۱۸۳
۳۔ محمود نظامی:میرا جی ایک مطالعہ ،مشمولہ مضمون’’میراجی‘‘،سنگِ میل پبلیشرز لاہور ۱۹۹۰،ص۱۱۴
۴۔ اخترالایمان کا رشید امجد کے نام خط،بہ حوالہ (رشید امجد،ڈاکٹر:میرا جی:شخصیت و فن،مغربی پاکستان اُردو اکادمی،لاہور ۱۹۹۵ء ص۷۳)
۵۔ وزیر آغا،ڈاکٹر:نئے مقالات،مشمولہ مضمون’’میرا جی کا عرفان ذات‘‘،مکتبہ اُردو زبان سرگودھا،۱۹۷۲ء ص۲۴
۶۔ میرا جی کا عبداللطیف کے نام خط:میراجی :ایک مطالعہ ،ص۶۹۸
۷۔ ایضاً،ص۶۹۷
۸۔ ایضاً،ص۷۱۵
۹۔ عبدالطیف کے نام خط،بہ تاریخ ۳۱ مارچ ۱۹۴۶ء،میرا جی۔ایک مطالعہ،ص۶۹۵
۱۰۔ میرا جی ایک مطالعہ،ص۴۷۶
۱۱۔ میرا جی ایک مطالعہ،ص۴۷۶
۱۲۔ میراجی۔ایک مطالعہ،ص۲۹۱
۱۳۔ میراجی۔ایک مطالعہ،ص ص ۳۷۸،۳۷۹
2010ء

2 تبصرے:

shakoor rafay کہا...

سردست پہلا مضمون ہی پڑھ پایا۔ منفرد موضوع ہے۔ کاش اسی بلاگ جیسی ترتیب سے یہ ادبی مجلوں کا موضوع بنیں ایسے موضوعات۔ کیا اچھا کہا کہ
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ آج کا شاعر حالات کو سمجھتا ہے ۔نظریہ اور نظریاتی مہم کو جانتا ہے ۔وہ سرحدوں سے پار جا کر انسانیت کی حمایت کرتا ہے، خطے کے سیاسی مقاصد کو بچانے کی خاطر حکمرانوں کا آلۂ کار نہیں بنتا۔ اپنے شاعر ہونے کا بنیادی فریضہ ادا کرتا ہے۔ محبت، امن، زندگی اور انسانیت اُس کے ’’مذہب‘‘ کے بنیادی عناصر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نظریہ ( Stance) کا اعلان انہی قدروں کی پاسداری کے لیے کرتا ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ قوانینِ انسانیت (Humanitarian Laws) ہر جگہ ایک سے ہیں، جغرافیائی یا نظریاتی حد بندی سے ماورا ہیں۔۔۔
اس تمام تر پس منظر اور پیش منظر کے احاطے کے باجود پچھلی ربع صدی کے عہد میں پاکستانی اردو ادیبوں کے موضوعات میں کس قدر عصری کشمکش آئی ۔ یہ ایک دلچسپ موضوع ہے واقعی

Unknown کہا...

بہت اچھے مضامیں ہیں بھائی ۔۔۔ادبی دنیاکے ذریعہ اتنی آسانی سے اتنی اہم تحریریں ہم تک پہنچ جاتی ہیں اس کیلئے شکریہ

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *